اصل دعوت یا جہاد؟
اسلام میں اصل چیز دعوت ہے، جہاد نہیں۔ اگر دعوت دینے کا موقع کافی نہیں ہے تو بعض دفعہ لڑنے کی نوبت آجاتی ہے۔ اس کو اس بات سے سمجھ لیجیے کہ آپ ﷺنے مکہ مکرمہ کے تیرہ سال میں جہاد نہیں فرمایا، اِس کو قرآن مجید میں یہ کہا گیا ہے کہ آپؐ ان سے جہاد فرمارہے ہیں۔ مکہ کی زندگی کو جہاد ہی کہا گیا۔
وَجَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيرًا۱؎
آپ ان کے ساتھ چھوٹا نہیں بڑا جہاد کیجیے اور یہ آیت مکہ شریف میں اُتری تھی۔ آپ ﷺ کیا جہاد کررہے تھے۔ ایسے حالات میں صبر کرکے انہیں دین کی دعوت دے رہے تھے۔ یہ جہاد ہی تھا۔ یہاں جہاد کو قتال کے معنی میں نہیں لیا گیا، جہاد الگ چیز ہے اور قتال الگ چیز ہے۔ لوگوں کو جنت میں پہنچانے کی کوشش کرنا جہاد ہے اور قتال میں لوگ جہنم میں چلے جاتے ہیں۔ مسلمان جتنے کافروں کو ماریں گے وہ سب جہنم رسید ہوں گے۔ اس لیے اسلام کا موضوع قتال نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضور ﷺنے حتی الامکان قتال سے گریز کیا ہے۔ قتال و لڑائی کے حالات ہمیشہ کافروں نے بنائے ہیں اور اس کے باوجود حضور ﷺنے یہ کوشش فرمائی کہ قتال و لڑائی نہ ہو۔ حضور پاک ﷺکی تیئس سال کی طویل مدت میں سے دس سال جہاد ہوا۔ دس سال میں ستائیس جنگوں میں حضور پاک ﷺبنفسِ نفیس تشریف لے گئے۔۲؎
اسلامی تاریخ میں مقتولین کی تعداد
جنگوں میں اور جنگوں کے علاوہ مسلمانوں اور کافروں کے مرنے کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک ہزار اٹھارہ کی تعداد بتائی ہے اور ہر جنگ کا
-----------------------------------------------------
۱؎: الفرقان:۵۲۔ ۲؎: عمدۃ القاری:۲۶ / ۳۸۰ ۔