تھے اللہ تعالیٰ اس درجے قریب ہیں کہ اگر آدمی ہاتھ ڈال کر دیکھے تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہیں ملتا۔ اصل میں یہ حدیث ہی کا مفہوم ہے۔
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے پوچھا: ''اوپر کیا ہے؟'' عرض کیا: ''بادل ہیں۔'' دریافت فرمایا: ''اُس سے اوپر کیا ہے؟'' عرض کیا: ''آسمان ہے۔'' ''اُس سے اوپر کیا ہے؟'' ''کرسی ہے۔'' ''اُس سے اوپر کیا ہے؟'' ''عرش ہے۔'' ''اُس سے اوپر کیا ہے؟'' ''اللہ ہے'' (جیسے عام فہم ہوا کرتی ہے)
پھر دریافت فرمایا: ''نیچے کیا ہے؟'' عرض کیا: ''زمین ہے۔'' ''اس سے نیچے کیا ہے؟'' ''زمین ہے۔'' (جیسے سات آسمان ہیں ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے سات زمینیں بنائی ہیں) اس کے بعد حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''اگر ایک رَسّی چھوڑی جائے اور وہ ساتوں زمینوں کو پار کرتی ہوئی آگے چلی جائے تو وہ رَسّی سیدھی اللہ تعالیٰ کے پاس جائے گی یعنی اوپر نیچے سب جگہ اللہ ہی ہیں۔''۱؎
قرب سے مراد
غرض یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سب سے قریب ہیں۔ کافروں اور مشرکوں سے بھی قریب ہیں اور ایمان والوں سے بھی قریب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ قریب نہ رہیں تو مخلوق کا وجود ہی نہ رہے۔ اس سے وہ قرب بھی مراد نہیں ہے جو اللہ والوں کو حاصل ہوتاہے جس کو پہنچنا کہتے ہیں۔ پھر قرب سے کیا مراد ہوتا ہے؟ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی رضا اور خاص قسم کا تعلق ہے یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور اولیاء کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف محبت والی لپک ہوتی ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں بس وہی چیز اُن کی محبوب ہوجاتی ہے بلکہ اُن
-----------------------------------------------------
۱؎:سنن الترمذی:۳۶۱۱۔