ہیں۔ اسلام کی رَسّی کو مضبوط پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ طاغوت کے ساتھ کفر کرو اور اللہ پر ایمان لاؤ۔
لَا انْفِصَامَ لَهَا
اُس کوکبھی بھی شکستگی نہیں ہے یا وہ کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ جو دین اور ایمان کو مضبوط پکڑے گا وہ کبھی نہ دنیا میں نقصان اُٹھائے گااور نہ آخرت میں۔
اگر رَسّی کو نہ پکڑسکے تو وہ الگ بات ہے مگر جس نے رَسّی کو مضبوط پکڑا وہ رَسّی ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ مسلمان اس بات کو نہیں سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کو اُن کا اسلام نفع نہیں دے رہاہے، یہ وجہ نہیں ہے کہ اسلام مضبوط نہیں ہے بلکہ یہ وجہ ہے کہ وہ لوگ اس اسلام کو مضبوط نہیں پکڑرہے ہیں۔ قرآن نے بتادیا کہ دین میں شکستگی نہیں ہے۔ آدمی اگر اس کو چھوڑ دے تو اُس کا نفع آدمی کو نہیں ملے گا اور اگر پکڑلے تو اُس کا نفع لازماً ملے گا اور کبھی بھی اسلام میں نقصان نہیں ہے۔ اسلام سراپا سلامتی کے لیے ہے اور ایمان سراپا امن کے لیے ہے دنیا میں بھی، قبر میں بھی، حشر میں بھی اور حشرکے بعد بھی۔اسی لئے اس کے نام ہی میں امن اور سلامتی کی جانب اشارہ ہے۔
وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اور اللہ تعالیٰ سننے والے اور جاننے والے ہیں۔ ایمان کی باتوں کو کون دل سے کہہ رہا ہے اور کون الفاظ سے ادا کررہا ہے، حق تعالیٰ شانہ، اقوال کوبھی سنتے ہیں اور دلوں کے حال کو بھی خوب جانتے ہیں، ظاہر اور باطن اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے۔
طاغوت سے کنارہ کشی کا ثمرہ
طاغوت کا کام کیا ہے؟ طاغوت کے ساتھ کفر کرنے میں کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے کیا ہوگا؟ اس سے متعلق آگے کی آیات آرہی ہیں۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: