ایمان والا ہے، جنت میں جائے گا لیکن ایک نماز چھوڑنے پر دو کروڑ سال جہنم میں ٹھہرسکتا ہے، نماز کا حساب الگ ہے، زکوٰۃ کا الگ ہے، حج کا الگ ہے، بیوی کے حقوق الگ ہیں، بچوں کے حقوق الگ ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان دیا ہے تو اُس کی قدر کریں اور اس کے نفع کو پہچانیں اور اپنے اندر ایسی کیفیت پیدا کریں کہ اوّلین درجے میں جنت مل جائے۔ یہاں آدمی مرا اور مرنے سے پہلے ہی سے حق تعالیٰ شانہ، فرمادیں:
إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوْا۱؎
اگر آدمی استقامت کے ساتھ رہا تو فرشتے اُس کے اوپر اُترتے ہیں اور بشارت دیتے ہیں کہ تم خوف و حزن مت کرو، اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے جنت کی خوشخبری ہے۔ یہاں پر اُس کا اکرام شروع ہوجاتا ہے اور اُس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے، قبر اور حشر میں آرام ملتا ہے۔ اگر کامل ایمان والا ہے تو پھر شروع ہی سے آدمی پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوگا۔
مسلمان اور کافر میں جوڑ نہیں
یہ بات اس پر عرض کررہا تھا کہ تمام ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کی ولایتِ عامہ حاصل ہے، یہ بھی بڑی قدر کی چیز ہے۔ اس لیے کبھی بھی مسلمان کو کافر کے ساتھ نہیں ملاناچاہئے۔ اور کبھی بھی یہ نہیں کہنا ہے کہ مسلمانوں سے اچھے تو کافر ہیں۔ بعض جگہ یہ سننےمیں آتا ہے کہ ارے بھائی! اِن مسلمانوں سے اچھے تو کافر ہیں۔ کسی بھی مسلمان سے کوئی بھی کافر کبھی بھی اچھا نہیں ہوسکتا۔ مسلمان بہرحال اچھا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ولی ہونے کی وجہ سے مسلمان کے گناہوں کا دنیا میں مصیبتوں اور پریشانیوں سے کفارہ کرتے رہتے ہیں۔
-----------------------------------------------------
۱؎: فصلت:۳۰۔