بھی کوئی چیز نہیں۔ پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کو اپنا ذکر سب سے زیادہ پسند ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصیت ہے کہ اُن کے لیے بڑائی سزاوار ہے، کسی اور کے لیے یہ زیبا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی اس لیے ہے کہ وہی بڑےہیں۔ کسی اور کے لیے سزاوار نہیں ہے کہ اُس کی بڑائی اور کبریائی کا بار بار ذکر کیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ اُن کا ذکر بار بار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا ہی اسی لیے کیا ہے کہ مخلوق اُن کو پہچانے، اُن کا ذکر کرے، اُن کو یاد کرے، اُن کا نام لے۔ انہوں نے کروڑہا کروڑ، اربہا ارب، کھربہا کھرب مخلوق بنائی۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ یہ مخلوق اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچانے، اُن کی قدرت کو پہچانے، اُن کی تعریف کرےاوراُن کا ذکر کرے۔
تخلیقِ انسان کا مقصد
اللہ تعالی نے کروڑہا کروڑ، اربہا ارب، کھربہا کھرب فرشتے پیدا کیے، اُن کے کیا کام ہیں؟ آسمانِ اوّل کے فرشتے الگ عبادت میں لگے ہوئے ہیں، آسمانِ ثانی کے فرشتے الگ عبادت میں لگے ہوئے ہیں، آسمان ثالث کے فرشتے الگ عبادت میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی رکوع کررہا ہے تو جب سے پیدا ہوا ہے وہ رکوع ہی میں ہے۔ کوئی سجدے میں ہے تو جب سے پیدا ہوا ہے وہ سجدے ہی میں ہے۔ کوئی سُبْحَانَ ذِیْ المُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ کہہ رہا ہے تو وہی کہہ رہا ہے۔ کوئی سُبْحَانَ الْحَیِّ الَّذِیْ لَاْیَمُوْتُ کہہ کر اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کررہا ہے۱؎۔ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے اور بندہ اس کا مکلف ہے۔ ہم اس بات کو سمجھیں۔ ہم جو اس وقت کام کرنے جارہے ہیں یہ سب سے اہم کام ہے۔ بایں معنی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہی چاہا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اُن کی تعریف کریں کہ واقعی اے اللہ! آپ ہی بڑے ہیں، آپ
-----------------------------------------------------
۱؎ : مستدرکِ حاکم: ۴۵۰۲۔