دیکھنے میں دو جملے ہیں۔ طاغوت کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ پر ایمان لانا،یہ آسان کام نہیں ہے۔ ہر مسلمان اللہ پر ایمان تو لے آتا ہے لیکن طاغوت کے ساتھ میں کفر نہیں کرتا۔ ہم سب اللہ کو مانتے ہیں لیکن طاغوت کے ساتھ میں کفر کرنا ایک مستقل کام ہے۔ آدمی دل سے غیر کا یقین نکال دے، غیر کی موافقت نکال دے، غیر کی اطاعت نکال دے، نہ اُس میں نفس سامنے آئے، نہ شیطان سامنے آئے، نہ بیوی بچے آئیں، نہ معاشرہ آئے، سب کے ساتھ میں کفر کرے تب اللہ پر ایمان آئے گا۔
کلمے میں ''لاَ'' پہلے اور ''اِلاَّ'' بعد میں ہے۔ اسلام نے نفی پہلے سکھلائی اور اثبات بعد میں ہے۔ اللہ پر ایمان کا اثبات بعد میں ہے اور غیروں سے نفی پہلے ہے۔ دل سے غیر کا یقین نکالنا اور دل میں اللہ کا یقین بٹھانا، ایسے ہی طاغوت کا انکار کرنا ہے اور اللہ پر ایمان لانا ہے۔
لہٰذاجو طاغوت یا شیطان کے ساتھ کفر کرے گا اور اللہ پر ایمان رکھے گاتواُس نے مضبوط پکڑ لیا مضبوط رسیّ کو۔
اگر کمزور رَسّی کو مضبوط پکڑا جائے تو کام نہیں چلتا یا مضبوط رَسّی کو کمزوری کے ساتھ پکڑا جائے توبھی کام نہیں چلتا، اس لیے فرمایا: ''اسْتَمْسَكَ'' اُس نے پکڑا ''بالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى''مضبوط حلقہ(رَسّی) کو۔ یعنی ایمان اختیار کرلینا ایسی چیز ہے کہ اُس نے مضبوط رَسّی کو تھام لیا۔
اسلام کی رَسّی ازل سے مضبوط ہے
اسلام کی رَسّی ازل سے مضبوط ہے، اس کو پکڑنے والے کبھی کمزور پکڑتے ہیں اور کبھی مضبوط پکڑتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی مسلمان پریشان ہیں، یہ بات نہیں ہے کہ اسلام کمزور ہے اس وجہ سے پریشان ہیں بلکہ مسلمان اسلام کو کمزوری سے پکڑتے ہیں اس وجہ سے پریشان