آپ ﷺکا رقیق اورگُداز دل برداشت نہ کرسکے اور آپ ﷺاپنے کام کو چھوڑ دیں۔ ان لوگوں نے صحابہ کے ساتھ جتنی زیادتیاں کیں، وہ صحابہ سے زیادہ حضور ﷺپر گراں تھیں چونکہ صحابہ جتنے اپنے بارے میں ہمدرد تھے، حضور ﷺاِس سے زیادہ اُن کے بارے میں ہمدرد تھے اور آپ ﷺکسی کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتے تھے۔’’عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘۱؎جن کو تمہاری مضرت نہایت گراں گزرتی ہے جو تمہاری منفعت کے خواہشمند رہتے ہیں ایمانداروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں،
کفار چاہتے تھے کہ حضور ﷺان تکالیف کو نہ دیکھ سکیں اور اپنا کام چھوڑ دیں۔
حضرت بلال ؓ پر ظلم
اب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی داستان کتنی اندوہناک، غمناک اور تکلیف دہ ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا قصہ اکثر سنتے رہتے ہیں کہ اُن کے پیر رَسیّ سے باندھ دیے اور اُن کو گھسیٹتے پھر رہے ہیں۔ مناظر احسنؒ گیلانی نے لکھا ہے کہ جب کتّے مرجاتے ہیں تو مہتر پیروں میں رَسّی ڈال کر گھسیٹتے ہیں، یہاں(ظالموں کا سلوک یہ ہے کہ) زندہ انسانوں کے پیروں میں رَسّی ڈال کر اُن کو گھسیٹا گیا ہے۔ قریش میں بھی ایسے کتّا صفت انسان تھے۔ ایک آدمی زندہ ہے، اُس کے پیروں میں رَسّی ڈال کر شرارتی بچوں کے حوالے کردیا کہ اس کو گلیوں میں گھسیٹو۔۲؎ایسے موقع پر پیٹھ کا کیا حال ہوتا ہے، چہرے کا کیا حال ہوتا ہے۔ گرم ریت اور اَنگاروں پر لٹایا جارہا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کتنے مہذب اور شائستہ آدمی تھے، جب
-----------------------------------------------------
۱؎: توبہ:۱۲۸۔ ۲ ؎ : سیرت النبی لابن کثیر: ۱ / ۴۹۴۔