مجاہدۂ حکمی پر مجاہدۂ حقیقی کا انحصار
پہلے زمانے میں نفس کو مٹانے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جاتی تھیں اُن کا نام ''مجاہدات حکمیہ'' ہے یعنی شریعت میں اس کا براہِ راست حکم نہیں لیکن یہ سب کچھ کرنے سے کئی حکموں پر چلنے کی استعداد پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے بغیر یہ صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ جب تک آدمی مجاہدۂ حکمی اختیار نہیں کرتا تو مجاہدۂ حقیقی نہیں کرسکتا، جب تک مجاہدہ حقیقی اختیار نہیں کرسکتا تو اُس کا ظاہر و باطن سنور نہیں سکتا، جب ظاہر و باطن نہیں سنورتا تو تعلق مع اللہ کی استعدادپیدا نہیں ہوتی۔ جب یہ سارے مراحل طے ہوجاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اپنا فیضانِ خاص فرماکر آدمی کو اپنے قربِ خاص سے سرفراز فرماتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں ان سب چیزوں کے حل کے واسطے حق تعالیٰ شانہ، نے پورے عالَم میں مولانا الیاس صاحبؒ کو استعمال فرمایا، اصل اللہ تعالیٰ ہی کرتے ہیں لیکن اپنے بندوں پر مہربانی کرکے صورتیں نکالتے ہیں، انہوں نے ان دونوں چیزوں کو جمع کیا ایک مجاہدہ کو اور دوسرے نیک ماحول کو۔ اس میں آدمی جتنی ترقی کرے گا اتنا ہی اوپر جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ آدمی تبلیغ پر جاکر آگیا تو اللہ والا بن جاتا ہے۔ تبلیغ پر تو گیا لیکن واپس آنے کے بعد اپنی قدر نہیں کی اور اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کی تو کیا حاصل؟ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا، ابھی لوگ صرف نماز پڑھ رہے ہیں، ابھی لوگ حلال و حرام کی معمولی سی تمیز کررہے ہیں، ابھی کہاں حسد دلوں سے نکل رہا ہے، ابھی کہاں ریا تمام چیزوں سے نکل رہی ہے، ابھی تو اخلاص کی ہوا بھی نہیں لگی۔ ہم اپنے کو مخلص تو کہتے ہیں لیکن ہمیں اخلاص کی حقیقت ہی نہیں معلوم تو پھر مخلص کہاں سے بنتے۔ اس کے لیے ایک وقت درکار ہے۔ مگر اُمت کسی نہ کسی درجے میں اس راستے