ہے کہ آپ گھر جائیں گے تو آپ کے سامنے یہ تمام چیزیں آئیں گی۔ اسی طرح جب آدمی اللہ تعالیٰ کا قربِ خاص حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ اختیار کرتا ہے تو توابع کے طورپرکبھی کرامت، کبھی کشف، کبھی وجد، کبھی سرور، کبھی قبض، کبھی بسط وغیرہ، اس طرح کی کیفیات آدمی کو پیش آتی ہیں۔ کبھی کچھ انوار کا محسوس ہونا، کبھی ذکر میں مزہ آنا اور کبھی مزہ نہ آنا، کبھی رونا بہت آنا، یہ ساری چیزیں توابع کے طور پر آدمی کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ ان چیزوں میں سے کوئی بھی بزرگی کے لئے ضروری نہیں ہے۔ لوگ بزرگی اس کو سمجھتے ہیں کہ کوئی کرامت دکھادے، کسی کو کشف ہوجائے، جو دُعا کی ہے وہ قبول ہوجائے، الہام ہوجائے، بزرگی کے لیے ان تمام چیزوں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جو ایسا کردے وہ بزرگ نہیں ہوتا، جو بزرگ ہے وہ ایسا ہی کرےیہ ضروری نہیں ہے۔ عام طور پر لوگ اسی چیز کو بزرگی کا معیار سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے بزرگوں سے تعلق کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تمام چیزیں توابعات میں سے ہیں۔
بزرگی کی حقیقت
یہ ایک راستہ ہے۔ جب آدمی مجاہدہ کرتا ہے اور اس مجاہدے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر آئے گا، اوران مجاہدوں سے لے کر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر جمنے تک درمیان میں کچھ اثرات نمایاں ہوتے ہیں، کبھی کوئی چمکدار چیز نظر آجاتی ہے، کبھی کوئی آواز سنائی دیتی ہے، کبھی الہام ہوجاتا ہے، کبھی سچے خواب دکھائی دیتے ہیں، آدمی سمجھتا ہے کہ میں بزرگ ہورہا ہوں حالانکہ ان چیزوں سے بزرگ نہیں ہوتا۔ بزرگی صرف اور صرف حضورﷺ کے طریقے سے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے میں ہے۔
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے کا واقعہ ہے۔ اُن کے زمانے میں بزرگی کا دور دورہ تھا۔ حضرت کے ایک خادم اُڑ کر اُن کے پاس آئے (اس زمانے میں لوگ ایسی مشق