دو نمبری علمائے ظاہر میں کم ہے لیکن علمائے باطن میں بہت زیادہ ہے۔ سجادہ نشین بن کر اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ ذرّہ برابر کام نہیں آتا۔ جب آدمی باطنی فقہ سے واقف ہی نہیں ہے تو کسی کی کیا تربیت کرے گا۔ وہ کیا جانتا ہے کہ باطنی مسائل کیا ہیں، اُن کو کیسے حل کیا جاتا ہے۔
شریعت،طریقت ، حقیقت اور معرفت
آپ یوں سمجھ لیجیے کہ شریعت ظاہری اور باطنی مسائل کا نام ہے۔ ان کو حاصل کرنے کا نام طریقت ہے۔ شریعت کو حاصل کرنے کے باضابطہ طریقے ہیں اور ان کا نام طریقت ہے۔ جب آدمی اُس کو اپناتا ہے تو اُس کی خرابیاں دُور ہوجاتی ہیں اور دل کی اچھائیاں حاصل ہوجاتی ہیں۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ''ضیاء القلوب'' میں فرمایا ہے کہ جب تک ظاہری اور باطنی اعمال صحیح نہیں ہوتے اُس وقت تک وصول اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے قربِ خاص کی استعداد ہی پیدانہیں ہوتی۔ اس سے آپ سمجھ لیجیے کہ کوئی آدمی پیر یا شیخ بنا ہواہو لیکن ظاہری اعمال بگڑے ہوئے ہیں، نماز نہیں پڑھتا، زندگی سنت کے خلاف گزارتا ہے اور پیر بنا ہوا ہے، وہ صرف دھوکہ ہے، اُس کے پاس حقیقت نہیں ہے کیونکہ اُس میں وصول کی استعداد ہی نہیں آئی تو اُس کو وصول کہاں سے ہوجائے گا۔ اس کے بغیر وصول ہو ہی نہیں سکتا۔
پہلے آدمی علمائے کرام کے پاس جائے اور اپنے عقیدے درست کرے۔ پھر اس کے بعد اپنے معاملات، معاشرت اور اخلاق سب صحیح کرے۔ اپنی وضع قطع، شکل و صورت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ کی اصلاح ہوجانے کے بعد یعنی ظاہر بن جانے کے بعدجس کو شریعت سے تعبیر کیا جاتا ہے اب آدمی کو ان اعمال میں جان ڈالنے کے لیے باطن کی طرف متوجہ ہوناچاہئے۔ پھر آدمی اپنے اند رسے ایک ایک چیز کو چن کر نکالتا ہے، ریاکاری نکالتا ہے، حبِ جاہ، حبِ مال، حبِ دنیا، حسد، کینہ، بغض، ظلم، دوسروں کو حقیر سمجھنا وغیرہ اپنے نفس میں