خودمختار ہے لیکن جو انجام سامنے آنے والا ہے آدمی اُس میں مختار نہیں ہے، اسی وجہ سے وہ مجبور ہے۔ اس لیے فرمایا:
فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
جو چاہے ایمان کو اختیار کرے اور جو چاہے کفر کو اختیار کرے۔
اب کوئی قرآن پاک کا اتنا حصہ لے لے اور یہ کہے کہ اللہ کی مرضی ہے ہم جو چاہیں کریں، جس کی مرضی ہے ایمان اختیار کرے اور جس کی مرضی ہے کفر اختیار کرے۔ اس کے بعد والی بات کو سمجھانے کے لیے فرمایا:
إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا
ہم نے کافروں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ اپنے اختیار سے جہنم کو اختیار کررہا ہے لہٰذا وہ آگ میں جارہا ہے۔ اس لیے فرمایا:
'' لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ'' دین میں زبردستی نہیں ہے۔
'' لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ''کا شان نزول
اسلام سے پہلے مشرکین،یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنے سے زیادہ اچھے مذہب پر سمجھتے تھے۔ مشرکین اپنے مقابلے میں یہودیوں اور عیسائیوں کو ترجیح دیتے تھے کہ وہ لوگ آسمانی کتاب رکھتے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا تھا مثلاً کسی عورت کے بچے مسلسل مررہے ہیں۔ وہ عورت منت مانتی کہ اگر اب میرے بچے زندہ رہے تو میں اُن کو نصرانی بنادوں گی، بڑا مذہب ہونے کے ناطے میں اُن کے حوالے کردوں گی۔چنانچہ ایک عورت نے ایسا ہی کیا، جب یہ بچے بڑے ہوگئے تو اُن کو عیسائیوں کے حوالے کردیا۔ حضور پاک ﷺتشریف لائے تو اسلام آگیا اور وہ عورت بھی مسلمان ہوگئی۔لیکن جب خیبر کے