دوسری مرتبہ اُن پر پھر حال طاری ہوا۔ پھر دوبارہ انہوں نے کہہ دیا ''سُبْحَانِیْ مَااَعْظَمَ شَانِیْ''۔ مریدین نے شیخ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے مارنا شروع کردیا۔ مریدین شیخ کو مارتے تھے لیکن اُس کا اثر مریدین کو ہوتا تھا۔ جب شیخ کو افاقہ ہوا تو دیکھا کہ سب لوگ زخمی ہیں۔ پوچھا کہ کیا ہوا؟ مریدین نے کہا کہ حضور! آپ ہی نے مارنے کی نصیحت کی تھی، ہم لوگوں نے آپ کی پٹائی کی لیکن مار ہم لوگوں کو لگ رہی تھی۔ کہنے لگے کہ اب آپ لوگ سمجھ گئے، میں ناقل ہوں، قائل نہیں ہوں۔ مجھ پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے اور اس کیفیت میں میں بات کو نقل کرتا ہوں، اپنی طرف سے نہیں کہتا ہوں، کوئی اورکہتا ہے۔
جیسے کسی پر جن چڑھ جائے تو وہ اس قسم کی باتیں کرتا ہے۔ زبان تو اُسی کی ہوتی ہے جس پر جن چڑھا ہے ،لیکن بولتا جن ہے۔ بعض مرتبہ ایسی کیفیت مخلوق پر طاری ہوجاتی ہے۔ تواللہ تبارک وتعالیٰ جس بندے سے راضی اور خوش ہوجاتے ہیں اُس بندے کو قرب خاص (رضا) حاصل ہوجاتی ہے ۔
مجنون اور مجذوب میں فرق
لیکن بعض مرتبہ بندہ پر حق تعالیٰ کی غیبی چیزوں کا ظہور ہوتا ہے جس کی وجہ سے بندہ کے ہوش اڑجاتے ہیں،ہمیں نظر آنے والی کائنات کے علاوہ دوسری کائنات بہت زیادہ ہے، اس کا کوئی شمار ہی نہیں ہے ؛بلکہ کائنات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیےہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں تو جب اللہ کے بندے پر کوئی غیبی چیز وارد ہوتی ہے توبعض مرتبہ اس سے اتنا اثر ہوجاتا ہے کہ اُس کے ہوش ختم ہوجاتے ہیں، اسی کا نام ''مجذوب'' ہوتا ہے۔ مجنون اور مجذوب میں یہی فرق ہے۔ مجنون اُسے کہتے ہیں جس کے جسمانی بیماری کی وجہ سے ہوش ختم ہوچکے ہوں۔ اور کسی واردِ غیبی کی وجہ سے حق تعالیٰ کی