مررہے ہیں ان لوگوں کی ذمہ داری اُن لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کے پاس یہ امانت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ایک ایک عمل میں ہزاروں لاکھوں مصلحتیں ہوتی ہیں۔
میں یہ بات اس پر عرض کرنے لگا ہوں کہ جیسے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کام لیتے ہیں ایسے ہی اپنے بعض نیک بندوں کو کام لگادیتے ہیں۔ جن کو کائنات سے متعلق ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں ایسے لوگوں کا نام ''اہلِ تکوین'' ہوتا ہے۔ لوگوں کو رُشد و ہدایت اور سیدھے راستے پر لانے کا کام جن سے متعلق ہوتا ہے اُنہیں ''اہلِ ارشاد'' کہتے ہیں۔ اہلِ ارشاد میں سے جو سب سے بڑے ہوتے ہیں ان کو ''قطب الارشاد'' اور اہلِ تکوین میں سے جو سب سے بڑے ہوتے ہیں ان کو ''قطب التکوین'' کہتے ہیں۔ یہ تمام عارفین صاحبِ شریعت، صاحبِ طریقت اور صاحبِ حقیقت ہوتے ہیں مگر ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اس بات کا ذمہ دار ہوتا ہے کہ اپنے کسب سے اپنے اعمالِ ظاہری اور اعمالِ باطنی کو درست کرے، جب آدمی کوشش کرکے اس کے لیے اپنے دل کی زمین ہموار کرلیتا ہے تو حق تعالیٰ کا فیضان اُس کے قلب کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ اپنا قرب خاص نصیب فرماتے ہیں۔
ولایت اور بزرگی کا مقصودِ اصلی
میں نے ایک بہت بڑے محقق کی تصوف کی کتاب میں دیکھا ہے کہ بندے کی طرف سے ولایت اور بزرگی میں اصل مقصود کیا ہوتا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصل مقصود کیا ہے؟ بندے کی طرف سے اصل مقصود دو چیزیں ہیں ایک ہے دوامِ حضور اور دوسرا ہے دوامِ طاعت۔ دوامِ حضور کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اوپر اتنی مشق کرنا کہ بندہ ہر وقت اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے محسوس کرنے لگے۔ یہ چیز مشق سے حاصل ہوجاتی ہے۔ جب آدمی مشق کرتا ہے تو اُس کو یہ ملکہ حاصل ہوجاتا ہے کہ اگر وہ نوکری کررہا ہے، کاروبار کررہا