خود حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ موسیٰ پر رحم کرے اگر صبر کرلیتے تو اورعجائباتِ خداوندی نظر آتے ۔۱؎ لیکن چونکہ اُن کے سارے کام ہوگئے تھے۔ جیسے کشتی میں سوراخ کردیا تو اس میں فائدہ کشتی والے کا تھا کیونکہ اگر کشتی صحیح و سالم رہتی تو بادشاہ قبضے میں لے لیتا۔ کشتی عیب دار ہونے کی وجہ سے انہی کے ساتھ رہ گئی اور اس کا ذریعۂ معاش محفوظ رہا۔
جو بھی کام ہوآدمی کو چاہے اُس میں نقصان نظر آئے یا فائدہ تو اُسے کیا کرنا چاہیے؟ آدمی کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہیے اور یہی سمجھنا چاہیے کہ اللہ پاک حکمت والے ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے کیا ہے وہ حکمت ہی سے کیا ہے۔ بظاہر وہ کشتی والا بھی ناراض ہوگیا مگر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُس کی حفاظت اسی نقصان میں رکھی تھی۔ ایسے بہت سارے واقعات پیش آتے ہیں۔
ایک وزیر کا واقعہ
ایک قصہ عام طور پر سنایا کرتا ہوں کہ ایک وزیر کی عادت تھی کہ وہ ہرکام پر یہ مقولہ کہا کرتا تھا کہ جو کچھ ہوا اچھا ہوا۔ ایک مرتبہ بادشاہ کی اُنگلی کٹ گئی تو وزیر کی زبان سے نکل گیا کہ اچھا ہوا۔ بادشاہ یہ سن کر ناراض ہوگیا کہ ایک تو ہماری انگلی کٹ گئی اور تم کہہ رہے ہو اچھا ہوا، یہ کیا بدتمیزی ہے لہٰذا اس کو جیل میں ڈالو۔ وزیر صاحب کو جیل میں ڈال دیا گیا، اُس نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوا اچھا ہوا۔ وزیر صاحب جیل میں تھے، بادشاہ شکار کے لیے چلاگیا۔ جب بہت آگے چلے گئے تو تھک گئے۔ آرام کے لیے ایک درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ اتنے میں ایک شیرآگیا۔ شیر کو دیکھ کر بادشاہ کی جان میں جان ہی نہیں رہی۔ شیر قریب آگیا۔ بادشاہ اس طرح ہوگیا جیسے مرگیا ہو۔ شیر کی خصوصیت یہ ہے کہ کسی کا شکار کیا ہوا نہیں کھاتا یعنی اُس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ دوسرے کا کھائے۔ شیر نے بادشاہ کو سونگھنا شروع کیا۔ سونگھتے
-----------------------------------------------------
۱؎: صحیح البخاری:۱۲۲۔