پوری مخلوق کے لیے یہ نظام رکھا ہے کہ وہ اُس کام کو کرنے میں مجبور ہے جس کے لیے اُس کو پیدا کیا گیا، اسی لیے اُس کے ساتھ امتحان کا معاملہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ جنت و جہنم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ سورج اور چاند کے لیے جنت اور جہنم کا مسئلہ نہیں ہے کہ تم اتنے کروڑ سال سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہو اور جو کام تمہارے ذمہ دیاگیا وہ کام تم کررہے ہو لہٰذا سورج اور چاند کو بھی ایک ایک جنت دی جائے گی، ایسی کوئی بات نہیں ہے، چاند و سورج کے لیے نہ جنت ہے اور نہ جہنم ہے۔ حتیٰ کہ فرشتوں کے لیے بھی نہ جنت ہے اور نہ جہنم ہے حالانکہ فرشتے انسانوں سے بہت پہلے سے عبادت کررہے ہیں اور بہت زیادہ کررہے ہیں۔ اُن کے مزاج میں نافرمانی نہیں ہے، جب نافرمانی نہیں ہے تو امتحان نہیں ہے، جب امتحان نہیں تو پھر انعام کس بات کا؟ جب امتحان نہیں تو پھر مصیبت کس بات کی؟ تمام چیزیں امتحان پر موقوف ہیں۔
انجام میں کسی کو اختیار نہیں
جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں سب یہی کہتے ہیں کہ میں مجبور ہوں۔ اگر آپ نہیں جائیں گے تو کیا آپ کی ٹانگ کاٹی جائے گی؟ یا آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ سب مجبور ہیں۔ کل اور پرسوں تو چھٹی ہے لیکن پیر کے دن میں مجبور ہوں ،حالانکہ کوئی آپ کو کچھ نہیں کہہ رہا لیکن پھر بھی آپ مجبور ہیں۔ انجام میں کسی کو اختیار نہیں ہے۔ آدمی جاب (Job)پر نہ جانے سے جاب باقی نہ رہنے کا انجام سامنے رکھ کر اپنے کو مجبور بتاتا ہے حالانکہ کوئی اس کی ٹانگ پکڑ کر نہیں کھینچ رہاہے۔ بالکل یہی حال دنیا میں ہے۔ آدمی اسلام لانے میں یا کفر اختیار کرنے میں اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے میں یا فسق و فجور کرنے میں، اپنے آپ کو خواہشات پر یا اللہ تعالیٰ اور نبی پاک ﷺکے احکامات پر چلانے میں