ہدایت کے دو مطلب بتائے جاتے ہیں ایک ارا٫ۃ الطریق یعنی راستہ دکھلانا اور ایک ایصال الی المطلوب یعنی راستہ پر پہنچانا۔
نبی کی طرف ہدایت کی نسبت
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ ۱؎
آپ ہدایت نہیں دے سکتے جس کو چاہیں۔
آپ ﷺکو ہادی بھی کہا گیا اور آپ کے اسمائے مبارکہ میں سے آپ کا نام ہادی بھی ہے۔ نبی کے ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راستہ بتلانے کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راستے پر چلادینے کا کام کرتے ہیں۔
توفیقِ خاص اسی معنی میں ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ شانہ، بندے کو لے کر چلتے ہیں۔ اس لیے بعض مفسرین نے ''اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ '' کا ترجمہ ''راستہ بتلائیے سے'' کیا ہے جبکہ اکثر مفسرین نے ''راستہ چلائیے''سے ترجمہ کیا ہے۔ ''اے اللہ! ہمیں سیدھے راستے پر چلادیجیے''۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو بھی آدمی نیک کام کرتا ہے وہ خود نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اُس سے کرواتے ہیں اور اُنہی کی توفیق سے ہوتا ہے۔ یہ بات سمجھائی جاتی ہے کہ جو لوگ جماعت میں نکلتے ہیں، وہ نکلتے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نکالتے ہیں۔ یہ قدم اُٹھتے نہیں بلکہ اُٹھائے جاتے ہیں۔ آدمی اللہ کے راستے میں پیسے خرچ کرتا نہیں ہے بلکہ خرچ کروائے جاتے ہیں۔ کتنے مالدار لوگ ہیں، اللہ کے راستے میں نہیں نکلتے لیکن کیسے کیسے غریب نکل جاتے ہیں۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ۔ جو کافر ہیں اُن کے اولیاء طاغوت ہیں۔
-----------------------------------------------------
۱؎: القصص:۵۶۔