قدیم صرف اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصہ
مادّہ قدیم نہیں ہے، مادّہ اللہ کے برابر نہیں ہے۔ قدیم اللہ تعالیٰ کی صفتِ خاصہ ہے،( اللہ تعالیٰ کے لئے لفظِ قدیم کا استعمال فلاسفہ کی اصطلاح کے اعتبار سے ہے ورنہ اس سے بہتر تعبیر اَلْاَوَّلُ ہے جو قرآن مجیدمیں مذکور ہے) اُس میں کوئی بھی شریک نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ازل سے ہیں اور کوئی چیز ازل سے نہیں ہے۔ یہ میٹریل جس سے یہ کائنات بنی ہے، یہ اللہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدیہی چیز ہے۔ اگر ہم اس کو ہمیشہ کا مان لیتے ہیں تو یہ اللہ کے برابر ہوجاتا ہے اور اسلام نے ہمیں پہلے دن سے بتایا کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ جب کبھی اہلِ اسلام اور اہلِ سائنس میں بحث ہوتی ہے، سائنس کا فلسفہ ''حقائقِ کائنات'' ہے یعنی کسی چیز کی حقیقت کو پہچاننا۔ فلسفی ہر چیز کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے جبکہ فلسفی کوخود اپنی حقیقت نظر نہیں آتی۔ جو کچھ اُس کو نظر آرہا ہے بس وہ اُسی کو حقیقت سمجھتا ہے اور جو کچھ وہ کہہ رہاہے وہ اُسے نظر آرہا ہے اور اُس کے لیے وہی حقیقت ہے۔ حضور ﷺکے اعجازِ علم کو پہچانیٔے اور ان کے علم کا اندازہ لگائیے۔ حضور ﷺنے دُعا سکھائی:
اللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا ۱؎
اے اللہ! جو چیز حق ہے اُسے حق دکھائیے۔
اسلام اور علمِ سائنس کا موازانہ
مخلوق کو مخلوق کی حیثیت کا سمجھ میں آنا بہت بڑی چیز ہے۔ سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ فلاں چیز کیا ہے؟ لیکن یہ نہیں بتاتی کہ فلاں چیز کیوں ہے؟ ''چیزوں''میں وہ صرف وہی بتاتی ہے جو
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیر ابن کثیر:۱ /۳۱۰۔