جو لوگ اُن کے پاس آتے تھے وہ دیکھتے تھے کہ لوگ چار چار، چھ چھ پیسوں کے لیے کیسی کیسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ پھر اُن کے دل میں یہ بات آئی کہ کچھ کام کرنا چاہیے۔ پھر حق تعالیٰ شانہ، نے کام کی نوعیت سجھانی شروع کی۔ اصل چیز قرآن و حدیث ہوتی ہے۔ قطب الارشاد کو یہ چیز سجھائی جاتی ہے کہ لوگوں کو کس طرح قرآن و حدیث پر لایا جائے۔
تبلیغی تحریک کی ابتداء
مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں کہ ابتداء میں جن لوگوں پر محنت شروع کی، اُن سے پوچھا کہ تم لوگ کس لیے آئے ہو؟ وہ بتاتے کہ ہم مزدوری کرنے آئے ہیں (کیونکہ وہ لوگ دوسرے علاقے میں مزدوری کرتے تھے) پھر اُن سے پوچھا کہ تم کو کیا ملتا ہے؟ مزدوروں نے کہا کہ ہم کو چھ پیسے ملتے ہیں۔ پھر مولانا فرماتے کہ میں تم کو چھ پیسے دے دوں گا، جو کام بھی میں لگانا چاہوں گالگاؤں گا۔ مزدور کہتے کہ ٹھیک ہے۔ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک مزدور کو چھ پیسے دیئے کیونکہ اُس زمانے کے چھ پیسے بہت ہوتے تھے اور اسے مسجد میں بٹھاکر کلمہ، نماز وغیرہ سکھانے لگے۔ جب دوسرے مزدوروں کو پتہ چلا کہ مسجد میں بیٹھے بٹھائے اتنے پیسے ملتے ہیں اور نہ کچھ کھودنا پڑتا ہے اور نہ سامان اُٹھانا پڑتا ہےتو لوگ آہستہ آہستہ مسجد سے رجوع ہونے لگے۔ اس طرح لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی گئی۔
حقیقی محبت کی ایک مثال
مولانا الیاس صاحبؒ رئیس زادے اور بہت مالدار تھے۔ اپنی زمینیں بیچنا شروع کیں اور لوگوں کو دیتے رہے۔ جب اللہ تعالیٰ سے خاص قسم کی محبت ہوجاتی ہے تو آدمی کے بہت سے کام لوگوں کی مصلحت کے خلاف ہونے لگتے ہیں۔