اب اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی مخلوق بنائی، جس نے اتنی بڑی مخلوق بنائی وہ خود کتنا بڑا ہوگا۔ وہ سب کو محیط ہے۔ اُس کے احاطے کی کیفیت بھی بڑی عجیب و غریب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اوپر تو سب کو جانتے ہیں مگر اندر سے نہیں جانتے۔ ہمارا حساب یہ ہے کہ ہم کٹورا سامنے رکھتے ہیں، اُس کو اُلٹا کردیا تو ہمیں کٹورے کا اوپری حصہ تو نظر آتا ہے لیکن اندر کا نظر نہیں آتا۔ انسان کا جسم چاروں طرف سے کھول دیا ،لیکن جگر کے اندر کیا کچھ ہے وہ نظر نہیں آتا۔ آپ نے کوئی چیز توڑ دی تو توڑنے کے بعد وہ نظر آتی ہے لیکن اُس کا ذرّہ نظر نہیں آتا۔ اگر کسی کو ذرّہ نظر آرہا ہے تو وہ ذرّہ حقیقتاً کیا ہے اُس کاعلم نہیں ہوتا۔
جگر ذرّے کا چیریں تو لہو خورشید کا ٹپکے
اگر آپ ذرّے کا جگر چیریں گے تو خون سورج کا نکلے گا یعنی سورج میں بھی وہی بات ہے اور ذرّے میں بھی وہی بات ہے۔ آج کی سائنس یہی بات کہہ رہی ہے۔ جو نظامِ شمسی سورج کے اطراف میں گھومتا ہے ہر ذرّے کے ساتھ ویسا ہی نظامِ شمسی ہے۔ ذرّے سے مراد ایٹم ہے۔
اسماءِ باری تعالیٰ کی تجلیات
قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ''مقاماتِ مقدسہ'' کے نام سے ہے۔ انہوں نے اس پر بڑی عجیب و غریب گفتگو فرمائی ہے۔ اُس میں انہو ں نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ، نے دنیا میں اپنے اسماء کی تجلیات پھیلا رکھی ہیں۔ پوری دنیا میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ناموں کے ظہور کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں اور صفات کا ظہور فرما رکھا ہے۔ جیسے پوری آگ میں اللہ تعالیٰ کی قیومیت کی تجلی ہے۔ اللہ تعالیٰ قائم رکھنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا قیام حرارت سے رکھا ہے۔ایسے ہی پورے پانی پر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ''حیّ'' کی تجلی ہے۔