عربوں میں دو قسم کے مہر دینے کا رواج تھا۔ ایک مہر معجل یعنی بیوی کو فوری طور پر کچھ نہ کچھ دینا اور آج بھی یہ رواج اُن کے پاس ہے۔ ایک مہر مؤجل یعنی جو بھی مقرر ہوتا اُسے بعد میں اطمینان سے دیتے۔ بیوی کو فوری طور پر کوئی چیز دیے بغیر اُس کے پاس جانے کو عام طور پر غیرت کے خلاف سمجھتے تھے۔ مہر معجل میں معمولی سی چیزبھی ہوا کرتی تھی، ضروری نہیں ہے کہ بہت ہی قیمتی چیز ہو۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا تمہارے پاس سورۃ الکافرون نہیں ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ وہ تو میرے پاس ہے۔ پھر فرمایا کہ کیا تمہارے پاس سورۂ اخلاص نہیں ہے؟ کہا کہ میرے پاس سورۂ اخلاص بھی ہے۔ فرمایا کہ یہ ثلث القرآن ہے۔ پھر اُس کے بعد دریافت کرتے کرتے آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہیں آیۃ الکرسی یاد نہیں ہے؟ کہا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے یاد ہے۔ فرمایا کہ یہ ربع القرآن ہے، قرآن کا ایک چوتھائی تمہارے پاس ہے اور تم کہہ رہے ہو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی عورت سے نکاح کی بات کرو اور بتاؤ کہ میں تمہیں آیۃ الکرسی یاد کرادوں گا۔۱؎
یہ اتنی عظیم الشان آیت ہے کہ حضور ﷺ نے اس آیت پر شادی کرنے کی اجازت دے دی، اگر کسی کو یہ آیت یاد ہے تو عورت کو یاد کرواؤ اور شادی کرلو۔
اسقاطِ مہر بندے کا حق نہیں
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے مہر معاف ہوجائیگا۔ مہر الگ چیز ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ ربانی ہے:
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ ۲؎ ہم کو معلوم ہے کہ ہم نے ان پر بیویوں کا مہر مقرر کیا ہے
-----------------------------------------------------
۱؎ : شعب الایمان:۲۲۸۵۔ ۲؎ : الاحزاب :۵۰۔