غرض یہ کہ نور مختلف قسم کا ہوتا ہے اور ظلمتیں بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ چونکہ نور کا پورا کا پورا محور حق تعالیٰ کی ذات ہے اس لیے اُسے واحد بولا جاتا ہے مگر اس میں بہت سے درجات ہیں اور ظلمتوں کی قسموں کے ساتھ ساتھ اس کے درجات بھی ہیں۔
بعض علماء نے اس کی یہ تفسیر فرمائی ہے کہ ایک ظلمت ہے کفر و شرک کی، اس کے مقابلے میں اسلام و ایمان کا نور پایا جاتا ہے اور ایک ظلمت ہے گناہِ کبیرہ کی، اس کے مقابلے میں گناہِ کبیرہ سے بچنے کا نور یعنی طاعت و استقامت کا نور ہے۔ ایک ظلمت بدعت کی پائی جاتی ہے اُس کے مقابلے میں سنت کا نور پایا جاتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی کو ایک نور حاصل ہے تو دوسرا نور بھی حاصل ہوجائے اور آدمی ایک ظلمت سے بچا ہوا ہے تو دوسری ظلمت سے بھی بچ جائے۔
آدمی کو جس نوعیت کی ولایت حاصل ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اُس نوعیت کی ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لاتے ہیں۔ اس میں بندہ محتاج ہے کہ جس نوعیت کا نور اُس کو حاصل ہے اُس سے اگلے مرحلے کا نور حاصل کرے اور وہ جس ظلمت سے بچا ہوا ہے اُس سے آگے والی ظلمت سے اپنے آپ کو بچائے۔
بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بڑی بڑی چیزوں سے بچا ہوا محسوس کرتا ہے لیکن چھوٹی چھوٹی چیزوں میں پھنس جاتا ہے۔ تمام چیزوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو ہدایتِ کامل ملے۔ جب آدمی کو نورِ کامل ملتا ہے تو تمام چیزوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
شیطان کا حربہ
شیطان جو نور سے ظلمت کی طرف لاتا ہے اُس کا اصل مشن یہی ہوتا ہے۔ شیطان دیکھتا ہے کہ یہ بندہ بڑی چیزوں کو چھوڑنے والا نہیں ہے،پھر اُس سے چھوٹی چیزوں کو دیکھتا ہے کہ یہ بندہ اس کو بھی چھوڑنے والا نہیں ہے۔حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ