آخر میں مرنے والے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ سب ہلاک ہوگئے؟ وہ کہیں گے کہ سب ہلاک ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ کون بچا ہوا ہے؟ وہ کہیں گے کہ اے اللہ! میں ہی ایک بندہ بچا ہوا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو بھی مرجا۔ وہ بھی فنا ہوجائیں گے۔۱؎ غرض یہ کہ حضرت خضر اہلِ تکوین میں سے ہیں یعنی دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کے حکم سے کرتے رہتے ہیں۔ مگر اہلِ تکوین کی وجہ سے وہ اہلِ اختیار نہیں ہوتے۔ جیسے فرشتوں کا کوئی اختیار نہیں رہتا۔اس کو بہت کم لوگ سمجھتے ہیں۔ حضرت میکائل علیہ السلام پانی پر مقرر ہیں لیکن اُن کو کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ سب لوگ مل کر میکائل علیہ السلام سے کہیں کہ یہاں سیلاب آگیا ہے، اب مزید پانی مت برسائیے۔ لوگوں کے کہنے سے وہ تھوڑاہی رُکنے والے ہیں، جتنا اُن کو برسانا ہے وہ تو برسائیں گے۔ یہ پانی روکنا اور بھیجنا اُن کے اختیار میں نہیں ہے۔ وہ ایک ایک قطرے کے محافظ ہوتے ہیں، جتنا پانی اللہ تعالیٰ نے اُتارنے کو کہا اُسے اُتار کر چھوڑیں گے اور جتنا اللہ تعالیٰ نے روکنے کے لیے کہا اُتنا روک کر چھوڑیں گے۔
لَا يَعْصُوْنَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۲؎
اللہ تعالیٰ نے اُنہیں جس بات کا حکم دیا ہے اُس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں۔
اہلِ تکوین کے افعال کی حقیقت
چنانچہ خضر علیہ السلام کے اعمال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس لیے ناگوار لگ رہے تھے کہ وہ بظاہر شریعت کے مخالف تھے اور اُن کے اختیار میں نہیں تھا کہ وہ اُن کی مخالفت کرتے۔ جب حضرت خضر علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ایک خادم تینوں کشتی میں سوار
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیر ابنِ کثیر:۳ / ۲۵۳۔ ۲؎: التحریم:۶۔