دس لوگوں کو جن کے لیے حساب کتاب کے بعد جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہوگا، حافظِ قرآن سے کہا جائے گا کہ تم ان میں سے دس افراد کو چن لو، ہم اُنہیں جنت میں بھیج دیں گے۱؎۔ یہی حال عالم کا ہوگا۔۲؎ یہی حال حاجی کا ہوگاکہ وہ اپنے خاندان والوں کی سفارش کرےگا۳؎، ان سب لوگوں کا مقام بتایا جائے گا کہ یہ لوگ ہمارے نزدیک اتنے محترم ہیں کہ ہم ان کی خاطر اتنے افراد کو محفوظ کرلیں گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ صاحبِ شفاعت کا مرتبہ بتانے کے لیے اُن لوگوں کو شفاعت کی اجازت دیں گے۔ بقیہ اللہ تعالیٰ کا دربار اتنا عالی ہے کہ اُن کے سامنے کوئی بھی کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔
نصوص میں راۓ زنی عظمتِ باری سے ناواقفیت کا نتیجہ
مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ''مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهٗ '' کون ہے جو اُس کے پاس سفارش کرسکے، اِلّا یہ کہ اُس کی اجازت ہو، یہ اسی لیے فرمایا ہے کہ مخلوق اس کی بارگاہ میں جرأت نہ کرے۔ اصل میں دنیا میں اللہ تعالیٰ کسی کو پکڑتے نہیں ہیں اسی لئے جس کے جی میں جو آیا وہ کہتے ہیں۔ ایک آدمی دوسرے آدمی کے خلاف اتنا نہیں کہتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ کے خلاف کہہ دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنی حکومتِ وقت کے خلاف اتنا نہیں بول پاتے جتنی جرأت اللہ تعالیٰ کے خلاف کرتے ہیں، کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے خلاف کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے کلام کے خلاف کہتے ہیں، اللہ کے نبی کے خلاف کہتے ہیں، حالانکہ جو اللہ تعالیٰ کی عظمت ہے وہی اللہ تعالیٰ کے کلام کی عظمت ہے۔
اس لیے جو صحیح عارفین گزرے ہیں وہ قرآن و حدیث کی باتوں کے سامنے بالکل بھی بے ادبی نہیں کرتے اور نہ کچھ بولنے کی جسارت کرتے تھے۔ بے ادبی کرنا، گستاخی کرنا، اپنے کو
-----------------------------------------------------
۱؎: سننِ ترمذی: ۲۹۰۵۔ ۲؎:معجمِ طبرانی:۸۰۵۹۔ ۳؎: مصنف عبد الرزاق:۸۸۰۷