سال نہیں بلکہ مکمل تین سال اس بائیکاٹ پر گزر گئے۔ اس دوران درختوں کے پتوں اور چھالوں پر گزارہ کرنا پڑا۔ حضور ﷺکو جو تکلیف تھی وہ اپنی جگہ پر تھی لیکن حضور ﷺکی اصل تکلیف یہ تھی کہ آپ ﷺسے دوسروں کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی تھی۔ قبیلے اور خاندان کی عورتوں کے جسم خشک ہوگئے تھے کہ اُنہیں چھوٹے بچوں کو دودھ پلانے کا موقع ہی نہیں تھا۔ یہ سب حالات مشرکین کو معلوم تھے اور وہ یہ سب اسی لیے کررہے تھے کہ مسلمان اسلام کو چھوڑ دیں یا اسی تکلیف میں مرجائیں۔
بالآخر حضور ﷺکے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور یہ اطلاع دی کہ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ جو تم لوگوں نے بائیکاٹ کا معاہدہ کیا اور اُسے خانۂ کعبہ میں لٹکایا ہے اُس کو دیمک نے چاٹ لیا اب یہ معاہدہ باقی نہیں رہا۔ حضور ﷺنے یہ کہلوا بھیجا۔ چنانچہ یہ لوگ خانہ کعبہ پر پہنچے اور دیکھا کہ پورے معاہدے کو دیمک چاٹ چکی تھی تب وہ معاہدہ برخاست ہوا اور مسلمان شعب ابی طالب سے نکلے۔۱؎شعب ابی طالب پہاڑیوں کے درمیان ابوطالب کے بکریوں کی چرنے کی جگہ تھی وہاں پر مسلمانوں کو محصور کیاگیا تھا کہ وہ لوگ گھر بھی نہیں جاسکتے اور خرید و فروخت بھی نہیں کرسکتے۔ اس مدت کے دوران کیا کیا مسائل جھیلے گئے؟ اور کیسے کیسے ظلم و زیادتیاں کی گئیں؟ یہ سب ناقابل بیان ہیں اور نہ سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔کیونکہ یہ لوگ مصیبتوں کو اللہ کی خاطر جھیلتے تھے اس لئے بیان نہیں کرتے تھے۔
تعذیبِ مسلمین صحابہ سے زیادہ حضور ﷺپر گراں
جتنے واقعات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ پیش آئے، وہ تمام واقعات صحابہ کے ساتھ جبر کے تھے، اس سے کہیں زیادہ وہ حضور ﷺکو تکلیف پہنچانے کے لیے تھے کہ
-----------------------------------------------------
۱؎: رحمۃ اللعالمین: ۹۱ ،دلائل النبوۃ : ۶۰۱ وسیرت النبی: ۱ / ۱۵۳۔