یہاں ''لاتأخذہ'' کے معنی مفسرین نے ''غالب'' کے لکھے ہیں کہ نہ تو اُس پر اونگھ غالب آتی ہے جو چھوٹی چیز ہے اور نہ نیند غالب آتی ہے جو اُس سے بھی بڑی چیز ہے۔اب مفہوم زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ ''لَاتَأْخُذُہٗ'' اُس پرغلبہ نہیں پاسکتی اونگھ اور نہ اس پر نیند غلبہ پاسکتی ہے۔ اونگھ اور نیند اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بھی پہلے سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اونگھ اور نیند کو اپنی مخلوق کی مقہوریت بتانے کے لیے پیدا کیا ہے کہ تم کس طرح ہمارے قابو میں ہوکہ تمہارا خود اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہے۔
صاحبِ مواہب الرحمن نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بھی عجیب معاملہ ہے جو مخلوق کے فائدے کی چیز ہے وہ بھی مخلوق کے لیے عیب ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں میں اس سے سبحان ہوں، اللہ تعالیٰ کو نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھ آتی ہے،اور مخلوق اسی کی محتاج ہے ''سونا''احتیاج کو بتارہا ہے۔ آدمی ضرورتمند ہے تو سوئے گا، جس کوکسی چیز کی ضرورت پڑجائے توپھر وہ کامل نہیں ہوا۔ جس کو کسی قسم کی محتاجی ہو، پھر وہ ناقص ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی وہ واحد ذات ہے جس کو کسی قسم کی محتاجی نہیں ہے۔ وہ صمد ہیں، وہ بے نیاز ہیں، وہ مستغنی ہیں اُن کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔
نیند موت ہی کی ایک کیفیت ہے
اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ۱؎
-----------------------------------------------------
۱؎ : الزمر:۴۲۔