آزاد سمجھ کر جو چاہے اُس میں رائے زنی کر ڈالنا، قرآن پاک کے مطلب کو اپنی طرف سے بتا ڈالنا، یہ اللہ تعالیٰ کی بات ہے، اگر اس کا مطلب بگاڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا تو پھر آدمی کیا جواب دے گا؟ اللہ کے نبی کی بات کو توڑ مروڑ دیا، کل میدانِ محشر میں فیصلہ ہوگا کہ ہم نے اپنے نبی کو اپنا نمائندہ بنایا، ایسے بڑی قدرت والے اللہ نے جس کو اپنا نمائندہ بنایا ہو کیا اُس کی بات کھیل کود ہے؟ جس نے جو چاہا مطلب بتادیا اور جس نے جو چاہا اُس کی تعبیر کردی اور جس نے جیسا چاہا اُس کو رَد کردیا، جس نے جیسا چاہا اُس کو قبول کرلیا، یہ سارے کھیل تماشے آخرت میں کھل جائیں گے،جب حق تعالیٰ شانہ، اپنے جلال کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گے ۔
جلالِ خداوندی
آسمان سے فرشتے لائن بناکر اُتریں گے:
وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۱؎
پروردگار آجائیں گے اور فرشتے صف در صف کھڑے ہوجائیں گے۔ اور اُس دن اللہ تبارک وتعالیٰ کا جلال اتنا ہوگا کہ آٹھ فرشتے عرش کو تھامنے کے لیے آجائیں گے۲؎حالانکہ اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں لیکن عرش پر اتنا بوجھ پڑجائے گا کہ چار فرشتے اس کو برداشت نہیں کرسکیں گے۔ عرش کے مقابلے میں کرسی اور اس کو تھامنے والے فرشتے بالکل معمولی ہیں۔ کرسی کو تھامے ہوئے فرشتوں اور عرش کو تھامے ہوئے فرشتوں کے درمیان ستر پردے ہیں،ستر پردے نور کے اورستر پردے ظلمت کے ہیں اور ہر پردہ کی موٹائی پانچ سو سال کی مسافت کے بقدر ہے اگر وہ پردے ہٹ جائیں تو عرش کے تھامے ہوئے فرشتوں کی نورانیت سے کرسی کو تھامے ہوئے فرشتے جل جائیں گے۔۳؎
-----------------------------------------------------
۱؎: الفجر:۲۲۔ ۲: الحاقۃ:۱۷۔ ۳؎:تفسیر مظہری:۱ /۳۵۹۔