ہے۔ اور باطنی حصہ صحیح ہے لیکن ظاہری حصہ صحیح نہیں ہےایسا کبھی نہیں ہوتا کیونکہ جب باطن صحیح ہوگا تو ظاہر خودبخود صحیح ہوجائے گا۔
ظاہر و باطن سے متعلق ایک دھوکہ
کچھ لوگوں کو یہ بھی بیماری ہے کہ ظاہر سے کیا ہوتاہے صرف دل اچھا ہونا چاہیے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو کچھ باہر ہورہا ہے وہ دل کی چاہت سے ہورہا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ باطن میں کچھ نہ ہو اور ظاہر میں وہ ہورہا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی عمل کے وجود سے پہلے جو عمل میں کررہا ہوں، جو چیز میں دیکھ رہا ہوں، جوبات میں کہہ رہا ہوں یا سن رہا ہوں،یا جو میں پہن رہا ہوں، کھارہا ہوں، جو کچھ ظاہر میں کررہا ہوں پہلے اُس عمل کا ارادہ چاہیے، ارادے کے بغیر میں وہ کام نہیں کرتا۔ خود ارادے سے پہلےکسی بھی فعل اور عمل کو وجود میں لانے کے لئے چار درجات سے گذرنا پڑتا ہے ذِکر(یاد) چاہیے، اس سے پہلے اُس کی فکر چاہیے اور اُس سے پہلے اُس کی خواہش چاہیے۔ پہلے خاطر(خواہش) ہوتی ہے، خاطر کے بعد ذِکر ہوتا ہے، ذِکر کے بعد فکر ہوتی ہے، فکر کے بعد ھَمٌّ ہوتا ہے، ھَمٌّ کے بعد ارادہ ہوتا ہے، ارادے کے بعد کسی عمل کا وجود ہوتا ہے۔ کسی بھی عمل کے لیے یہ تسلسل لازم ہے، اس کے بغیر کوئی آدمی عمل نہیں کرتا۔ سب سے پہلے ''خاطر''اسکامحل دل ہے، اصل عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ دل میں ایک خواہش آتی ہے، دل یہ خواہش دماغ کو دیتا ہے، دماغ دل کا وزیراعظم ہے اور دل بادشاہ ہے۔ دونوں میں اتنا قرب ہے کہ اصل سوچنے کا کام دل کرتا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ دماغ سوچ رہا ہے۔ قرآن میں یہ نہیں ہے کہ دماغ سوچتا ہے لیکن قرآن میں یہ ہے کہ دل سوچتا ہے: