کشف کی عقلی دلیل
جب تک ٹیلی ویژن اور ریڈیو نہیں آئے تھے اگر اُس وقت کسی کو بتایا جاتا کہ یہاں کی چیز وہاں نظر آتی ہے تو وہ کیسے یقین کرتا؟ لیکن اب ہمارے لئے یہ بات کوئی تعجب کی نہیں رہی کہ امریکا والے انڈیا کے آدمی کو دیکھ رہے ہیں اور انڈیا والے امریکا کے آدمی کو دیکھ رہے ہیں، اِدھر سے اُدھر آنِ واحد میں بات ہورہی ہے لیکن جب تک یہ چیزیں وجود میں نہیں آئی تھیں اُس وقت یہ چیزیں لوگوں کے لیے اچنبھا تھیں، ان مادّی چیزوں سے زیادہ چیزیں آدمی کے اندرموجود ہیں۔ جیسے آج کا آدمی ٹیلی ویژن کے ذریعے سے دُور کی چیزیں دیکھ سکتا ہے، بغیر ٹیلی ویژن کے ذریعے آدمی میں یہ صفت ہے کہ وہ دُور تک کی چیزوں کو دیکھ لے اور کئی اولیاء اللہ دیکھتے تھے۔ اسی کا نام کشف ہے۔ جیسے آپ ہوائی جہازوں اور راکٹوں کے ذریعے سے بڑی مسافتوں کو طے کرلیتے ہیں تو ہزاروں اولیاء اللہ ایسے گزرے ہیں جن کو طَیُّ الْمَسافَۃ کی کرامت حاصل تھی، ایک قدم اُٹھاتے تھے تو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ جاتے تھے۔
''کرامت'' اور استدراج
یہ واقعات اتنے کثرت سے ہوئے ہیں کہ آپ اندازہ نہیں لگاسکتے۔ جیسے آدمی کشتی میں چلتا ہے ایسے ہی آدمی کے اندر صلاحیت ہے کہ وہ بغیر کشتی کے بھی چلے۔ جیسے آدمی مختلف چیزوں کے ذریعے سے پانی اور زمین کے اندر جاسکتا ہے ایسے ہی بغیر چیزوں کے آدمی پانی کے اندر جاسکتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی تمام کرامتیں آج دنیامیں گشت کررہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بزرگوں کو ان اسباب کے بغیر طاقت دی تھی، اب دنیا ان چیزوں کو اسباب کے ساتھ کررہی ہے۔ ورنہ ہوا میں اُڑنے کا کام، زمین کے اندر جانے کا کام، تبدیلیٔ ماہیت یعنی چیز