زبان سے کلمہ کا اظہار کردے اور دل سے مسلمان نہیں ہوا اور اندازہ ہوجائے کہ اس نے جان بچانے کے لیے اسلام قبول کیا ہے، تب بھی مارنے کا حق نہیں ہے۔
جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھنے پر بھی امن
ایک صحابی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیااور انہوں نے اس کافر کو قتل کردیا۔ جب یہ مسئلہ حضور ﷺکے سامنے لایا گیا تو آپ ﷺاتنے ناراض ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی آپ کو اتنا ناراض نہیں دیکھا گیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میدانِ جنگ گرم تھا، دونوں طرف سے وار چل رہے تھے۔ ایک کافر میرے وار کے نیچے آگیا تھا تو اُس نے کلمہ پڑھ لیا، میں سمجھا کہ یہ اپنی جان بچانے کے لیے پڑھ رہاہے، حقیقتاً دل سے نہیں مان رہا ہے۔حضورﷺیہ سن کر جلال میں آگئے اور فرمایا کہ تو نے اُس کا سینہ چیر کر دیکھا تھا۔ ۱؎قرآن پاک میں کہا گیا کہ اگر کبھی کوئی غیرمسلم میدانِ جنگ میں اپنی جان بچانے کے لیے یہ چال بازی اختیار کرے تو بھی تم اُن کی رعایت کرو۔۲؎ہدایت دینا ہمارا کام ہے۔
غرض یہ کہ اسلام میں جہاد کا موقع تو آجاتا ہے اور یہ موقع کسی کے زبردستی لانے سے نہیں آتا بلکہ اگر کسی کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ نہ اسلام کو قبول کرتے ہیں اور نہ ماتحتی کو قبول کرتے ہیں تو اس وقت یہ موقع آتا ہے۔ جہاد بھی دوسروں کو اسلام کا موقع فراہم کرنے کے لیے ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سامنے والے ماتحتی قبول نہیں کریں گے تو اُس کے بعد والوں کو اسلام کی دعوت دینے کا موقع کہاں سے ملے گا، اسلام میں ایسی صورت میں سامنے والوں کے ساتھ جنگ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
اس لیے قرآن پاک میں یہ بات بتادی گئی کہ اسلام میں بالکل بھی زبردستی نہیں ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎: صحیح مسلم:۱۵۸۔ ۲؎: التوبہ:۶۔