مرکزی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت بغیر اللہ والوں کی صحبت کے نہیں دی جاتی ۔ کیوں نہیں دی جاتی؟ مخلوق کو نہیں معلوم ،یہ تو اللہ ہی سے پوچھا جاسکتا ہے ، لیکن اب تک کا تجربہ یہی ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو کچھ بھی ملا وہ حضور ﷺ کی صحبت ہی سے ملا۔ ''صحابہ'' نام بھی اسی لیے پڑگیا تاکہ بعد والوں کو پتہ چلے کہ صحبت اصل ہے ورنہ ''صحابہ'' کو مفسر، محدث، فقیہ کہا جاسکتا تھا۔ ''صحابی'' کا مطلب ساتھ رہنے والا حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کی یہ برکت ہے۔ اصل چیز آدمی کو کسی نیک ماحول کا ملنا ہے۔ ولیٔ کامل کے پاس نیک ماحول ہوتا ہے۔ جب آدمی کو طلب ہوگی تو وہ ولئ کامل کے پاس جائے گا۔
اہل اللہ کی صحبت کا بدل
لوگوں کے پاس پہنچو اور اُنہیں اُن کے گندے ماحول سے نکال کر فرشتوں کے پاکیزہ ماحول میں لاؤ، پاکیزہ بات کرو، پاکیزہ عمل کرو۔ ایک کام مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سیرت پر غور کرکے یہ کیا کہ اللہ والوں کی صحبت کا بدل کسی بھی درجے میں فراہم کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انہوں نے یہ کام اپنی طرف سے کیا مگر اُس وقت تک اس چیز کا رواج نہیں تھا۔ جب مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ''دعوت'' کے نام سے کام شروع کیا، اور وہ خود قرآن و حدیث کے ماہر تھے، انہوں نے بڑے علماء سے استفسار کیا کہ میں نے جو کچھ کام شروع کیا ہے وہ قرآن و حدیث کے خلاف تو نہیں ہے، باقاعدہ فتاویٰ لیے۔ علماء نے کہا کہ یہ کام خلافِ شرع نہیں ہے بلکہ بالکل صحیح ہے۔ پھر مولانا نے اس کام کو آگے بڑھایا۔
مجاہدہ کے اقسام
اور پھر مجاہدے کی ترتیب شروع کی۔ مجاہدہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک حقیقی اور ایک حکمی۔ مجاہدہ حقیقی یہ ہے کہ ہر حکم پر آدمی کا جمنا۔ راہ چل رہے ہیں، سامنے سے ایک عورت