ہے، غرض یہ کہ اہل اللہ کی ایک قسم ''اہلِ ارشاد'' کہلاتی ہیں۔ اس میں سب سے بڑے درجے والا ''قطب الارشاد'' کہلاتا ہے۔
قطب التکوین
اولیا٫اللہ کی ایک قسم اہل تکوین کی ہے''اہلِ تکوین'' کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والے کام بھی اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کے سپرد کرتے ہیں یعنی اُن میں فرشتوں والی صفت آجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ جو کام فرشتوں سے لے رہے ہیں وہی کام اُن سے لیتے ہیں۔ پانی پر میکائل علیہ السلام مقرر ہیں، جان کے نکالنے پر عزرائیل علیہ السلام مقرر ہیں، وحی کے لانے پر جبرئیل علیہ السلام مقرر ہیں، لوگوں کی حفاظت پر کچھ فرشتے مقرر ہیں، پہاڑوں پر کچھ فرشتے مقرر ہیں، جنگلوں میں کچھ فرشتے مقرر ہیں، بچوں کی حفاظت پر کچھ فرشتے مقرر ہیں، فرشتے مختلف کاموں میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ قرآن پاک میں انہیں ''مُدَبِّرَاتُ الْأمْرْ'' کہا گیا ہے۔۱؎ ایسے ہی اللہ تعالیٰ بعض بزرگوں اور اہل اللہ سے کام لیتے ہیں۔ اس میں بڑے درجے والے کو ''قطب التکوین'' کہتے ہیں۔
اہلِ تکوین کی مثال
آپ پوچھیں گے کہ اس بات کی کوئی اصل ہے؟ جی ہاں! اس کی اصل موجود ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا قصہ سورۂ کہف میں مذکور ہے، بہرحال حضرت خضر آدمی ہیں۔ وہ اہلِ تکوین میں سے ہیں۔ اکثر علماء کی رائے ہے وہ اس وقت بھی زندہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ وہ جہاد بھی کریں گے کیونکہ اُنہوں نے آبِ حیات پی لیا ہے۔۲؎ اُن کی موت سب
-----------------------------------------------------
۱؎: النازعات:۵۔ ۲؎: عمدۃ القاری:۳ /۳۲۔