عیسائیت یا یہودیت پر مرے گا وہ جہنم میں جائے گا) آپ ﷺنے یہی فرمایا کہ زبردستی نہیں ہے، بچے اپنے اختیار سے جارہے ہیں لہٰذا تمہارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں رہی۔ ۱؎
اسلام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ یعنی دنیا میں اسلام کو قبول کرنے کے لیے جبری نظام نہیں ہے۔ جس چیز کی وضاحت مکمل نہیں ہوتی اُس پر آدمی کو جبر کیا جاتا ہے اور اس کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔
جبر کا محل
اسلام کی بنیادی چیزوں میں سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور حضور ﷺکی رسالت ہے، جب اسلام کی حقانیت دلائل سے واضح ہے تو پھر اسلام میں زبردستی نہیں ہوسکتی۔ جس چیز کا اپنی ذات پر حق نہیں ہے اور جس چیز پر لوگوں کو قائل نہیں کیا جاسکتا، جس کو لوگ نہیں مانتے وہاں پر زبردستی چلتی ہے۔ جیسے کوئی حکومت کا ذمہ دار ہے اور کوئی نظام لاگو کرنا چاہتا ہے، عوام نہیں مان رہی تو یہ زبردستی کرے گا کہ اس قانون کو مانو ورنہ سزانافذ کروادوں گا۔ ایسی جگہ پر زور زبردستی چلتی ہے۔ اسلام میں زبردستی نہیں ہے۔
اسلام میں جبر نہ ہونے کی وجہ
ویسے بھی اسلام میں زبردستی نہ ہونے پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کا محل یا جگہ دل ہے اور دل پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔ اگر دل پر جبر کیا گیا اور آدمی زبان سے اسلام لے آیا تو بھی مسلمان نہیں ہوتا۔ منافقین خود کو مسلمان ظاہر کرتے تھے لیکن دل سے مسلمان نہیں
-----------------------------------------------------
۱؎: تفسیرِ نسفی:۱ / ۱۳۰۔