چیز کی قربانی بآسانی دے سکتا تھا۔ جب بعد میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر جمنے کے لیے قربانی دینا آسان نہیں رہا تو کوشش کرکے پہلے یہ صلاحیت پیدا کی جانے لگی کہ جس کے بعد نفس کی مخالفت کی ہمت ہوسکے، پھر اس کے بعد مخالفت آسان ہوئی۔
حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی ؒکے پوتے کا واقعہ
حضرت شاہ ابوسعید، عبدالقدوس گنگوہیؒ کے پوتے ہیں۔ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی ؒ کے ایک خلیفہ شاہ نظام الدین بلخیؒ تھے۔ وہ بلخ سے آئے تھے۔ حضرت شاہ عبدالقدوس گنگوہی ؒ نے نظام الدین بلخی کا تزکیۂ باطن اور اصلاح کی۔ اس کے بعد حضرت نے اُن کو اصلاح کی اجازت دی۔ وہ اپنے وطن واپس چلے گئے۔ جو حال نواب زادوں کا ہوتا ہے وہی حال پیر زادوں کا ہوتا ہے۔ شاہ ابوسعیدؒ کی زندگی بھی اسی حال میں گزرتی رہی۔ ایک مرتبہ اُن کے دل میں بات آئی کہ میرے دادا کتنے بڑے اللہ والےتھے اور میرے والد بھی کتنے بڑے اللہ والے تھے، مجھے اپنی زندگی صحیح کرنی چاہیے۔ انہوں نے دیکھا کہ میں یہاں رہ کر یہ چیز حاصل نہیں کرسکوں گا، مجھے کچھ کرنا چاہیے۔ اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں اپنی تربیت کے لیے دادا کے خلیفہ کے پاس بلخ چلا جاؤں۔ شاہ ابوسعید نے یہاں سے لکھا کہ میں آپ کے پاس آرہا ہوں۔ حضرت شاہ نظام الدین بلخیؒ نے شیخ کی نسبت کی وجہ سے پوتے کا بستی سے باہر آکر استقبال کیا اور اپنا عمامہ بچھایا کہ آپ اس پر چل کر آئیں، آپ ہمارے شہزادے ہیں۔ اُن کو اپنی خانقاہ لے آئے۔ وہاں اُن کی خوب خاطر تواضع کی۔ پہلے کے بزرگوں کو تین دن کے بعد پوچھنے کی عادت تھی۔ تین دن بعد پوچھا کہ صاحبزادے! کیسے زحمت فرمائی؟ شاہ ابوسعیدؒ نے کہا آپ میرے دادا کے پاس سے جو امانت لے کر آئے ہیں، میں وہ لینے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اگر دادا والی امانت لینی ہے تو پھر یہ نوابیت نہیں چلے گی۔ شاہ ابوسعید نے کہا کہ آپ جو