ہم اپنی پیشانی کو باشعور طریقے سے تو جھکاتے ہی نہیں ہیں۔ ہمیں بچپن سے عادت ہے بس اپنا سر زمین پر مارے جارہے ہیں، مگر ایک سجد ۂ شعوری ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کو امریکا کے صدر کے سامنے کھڑا کردیا جائے کہ اس کو سجدہ کرو تو کوئی آدمی بھی اُس کو سجدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کا سر اتنا عزیز ہے کہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ ٹھیک ہے، آپ اپنی جگہ پر صدر ہیں ،لیکن آپ کے سامنےسر جھکایا نہیں جاسکتا۔ (جس نے جس کو جہاں تک سمجھا ہے وہاں نہیں جھکتا اور جہاں نہیں سمجھا اُس کے سامنے جھک جاتا ہے۔) کچھ لوگ پانی کے سامنے جھک جاتے ہیں لیکن جب پانی سمجھ میں آجاتا ہے کہ میں پانی کو اپنے واش روم میں لے سکتا ہوں، چاہے وہ پانی سمندر کا ہو ،بھلا وہ کیا قابلِ عبادت ہے۔ آپ جس پانی سے استنجاء کرتے ہیں کیا وہ جھکنے کے قابل ہوسکتا ہے۔ اسلام نے تمام مخلوق کو ایک ساتھ سمجھادیا کہ سب خدا کی مخلوق ہیں۔ کہیں بھی نہیں جھکنا ہے۔ اب کہاں جھکنا ہے؟ انسانوں میں امیر و غریب، عالم و جاہل، نیک و بد، حتیٰ کہ اولیاء اور انبیاء کے لیے بلکہ سب کے لیے ہے کہ تم دن میں پانچ مرتبہ ہمارے سامنے سجدہ کرو۔ سجدہ کرنا اور زمین پر ناک کو رگڑنا ،اس کے آگے کوئی گنجائش نہیں ہے ورنہ زمین میں گھس جانے کا حکم ہوتا اگر یہ عاجزی اورانکساری کی صورت ہوتی، اگر اس (سجدہ)سے بھی آگے انکساری اور ذلت کو ظاہر کرنے کا کوئی راستہ ہوتا تو انسان اس کا بھی مکلف ہوتا کہ انسان اللہ کے لیے وہ راستہ بھی اختیار کرکے دکھائے،اگرچہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت کا پورا اظہار نہیں ہے۔
انسان اور اس کی عبادت کی حقیقت
اللہ تعالیٰ اتنے عظیم ہیں کہ اُن کی عظمت کا اظہار اپنے محدود جسم سے ناممکن ہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم جو عبادت کرتے ہیں یہ ہمارے حساب سے عبادت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ