جب امریکن آتے ہیں تو اُن کے حساب سے پکتا ہے، جب انڈیا اور پاکستان سے مختلف لوگ آتے ہیں تو اُن کے حساب سے پکتا ہے۔ ہر قسم کے آدمی کے حساب سے کھانا پکتا ہے اور روزانہ پکتا ہے اور بے حساب پکتا ہے۔ پہلے بزرگانِ دین کے پاس بھی ایسا ہی لنگر ہوا کرتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق کی وجہ سے بزرگی حاصل ہوجاتی ہےتو اُن کو ایک فن آجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لینا اور مخلوق کو دینا۔ پھر مخلوق سے مانگنا باقی نہیں رہتا بلکہ مخلوق کو دینے کا ذہن ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ کے دینے کے راستے الگ الگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود مخلوق سے بھی اُنہیں دلواتے ہیں اور مخلوق کو اُن کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ ہی سے مانگتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ لوگوں سے دلواتے ہیں۔
''توکل'' بہترین ذریعۂ معاش
تقسیم ہند سے پہلے ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس انگریز کا ایک بہت بڑا افسر پہنچا اور کہا کہ میں نے آپ کی بہت تعریف سنی ہے، آپ کا ذریعۂ معاش کیا ہے؟ مولانا نے کہا کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جب انگریز افسر جانے لگا تو اُس کے دل میں بات آئی کہ مولانا اتنا کام کررہے ہیں، ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، چلو! ان کو کچھ دینا چاہیے۔ لہٰذا اُس نے اُس زمانے کے پچاس روپے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس کو یہاں سے لے جاؤ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا ذریعۂ معاش توکل ہے۔ جس طرح دنیا کے حساب سے دکان ذریعہ ہوتی ہے، اسی طرح ''توکل'' بھی ایک مستقل ذریعۂ معاش ہے۔
غرض یہ ہے کہ ولایتِ خاصہ حاصل ہوجانے کے بعد جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ باتیں میں عرض کررہا ہوں۔