کے بدل جانے کا کام تک ہوتا تھا۔ ان تمام چیزوں کے لیے ایمان بھی شرط نہیں ہے۔ اگر آدمی بغیر ایمان کے نفس پر زیادہ مجاہدہ کرتا ہے تو یہ چیز حاصل ہوجاتی ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ ایساخلافِ عادت کام ہو تو اسے ''کرامت'' کہتے ہیں اور اگر بغیر ایمان کے یہ چیز حاصل ہو تو اسے ''استدراج اور ڈھیل'' کہتے ہیں۔ جوگیوں، سنیاسیوں، راہبوں وغیرہ کے واقعات اسی قبیل سےہوتے ہیں۔
ہندوستان میں اب بھی ایسے جوگی موجود ہیں کہ آپ ہاتھ کھولیں تو آپ کے ہاتھ گلاب کا پھول دے دیتے ہیں، لیموں اور لڈّو ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ سائی بابا کی پوجا اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ جو بھی اُس کے پاس جاتا ہے اور ہاتھ پھیلاتاہے وہ اُس کے ہاتھ میں لڈّو تھمادیتا ہے۔ بعض مجاہدے ایسے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں۔
ایک بزرگ کی کرامت
ایک بزرگ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک جوگی نے اُن سے کہا کہ میں ہوا میں اُڑنے کے لیے تیار ہوں۔ اسلامی بادشاہت تھی۔ جوگی نے کہا کہ میں حق پر ہوں، میرے نفس میں اتنی لطافت ہے، میں اُڑ سکتا ہوں۔ اُس نے اُڑ کر دکھادیا۔ جب بادشاہ نے یہ دیکھا تو سوچا کہ اس کا جواب ضرور ہونا چاہیے، ورنہ لوگ اسلام سے متنفر ہوجائیں گے۔ غالباً حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس کے ساتھ اُڑوں گا تو اُس میں اور مجھ میں کیا فرق رہے گا لہٰذا جب یہ جوگی اُڑے گا تو اس کے ساتھ میرا جوتا اُڑے گا۔ چنانچہ جب جوگی نے اُڑنا شروع کیا تو اُس کے ساتھ حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا جوتا اُڑنے لگا، جوگی جتنا اوپر اُڑ سکتا تھا وہ اُڑا، حضرت کے جوتے اُس کے سر پر جاکر برسنا شروع ہوگئے۔ تب اُس نے اسلام کو قبول کیا۔