نظر آرہا ہوتا ہے، اُس کے باطن کا سائنس بھی نہیں بتاسکتی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آدمیوں کو سائنس کے ذریعے سے حاصل ہونے والا علم محدود ہے جبکہ آسمانی علم سائنس کے علم سے بہت بڑا ہے۔ آپ اس سے یہ بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ قرآن و حدیث کا علم سائنس کے علم سے کتنا بڑا ہے، کیونکہ سائنس جو کچھ بتاتی ہے وہ انتہائی محدود ہے۔ تمام مخلوق جو سائنس والوں کو نظر آرہی ہے، ان تمام مخلوق کے سامنے دنیا کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے مقابلے میں اللہ کی کرسی کا کیا حال ہے؟ اس کے مقابلے میں اللہ کے عرش کا کیا حال ہے؟ جس اللہ نے اپنے علمِ مبارک سے ان کو وجودبخشا، وجودبخشنے کے بعد ان کو قائم فرمایا۔
حاملانِ عرش کی تسبیحات
غرض یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ کرسی کے چار پائے ہیں اور چاروں پایوں کو چار فرشتے تھامے ہوئے ہیں اور ہر فرشتے کی لمبائی اور چوڑائی آسمان کو محیط ہے یعنی ایک ایک فرشتہ بہت بڑا ہے اور حق تعالیٰ نے اُن چاروں کو الگ الگ شکل میں بنایا ہے۔ کرسی کے ایک پائے کو تھامنے والے فرشتے کی صورت آدم کی صورت میں بنائی ہے اور اُس کا کام اللہ تعالیٰ سے تمام بنی آدم کے لیے روزی کی بھیک مانگتے رہناہے۔ اللہ تعالیٰ بغیر مانگے بھی دیتے ہیں لیکن اُن کی ایک قدرت ہے، اُن کا ایک کمال ہے، اُن کی ایک بڑائی ہے، یہ بھی بتانے کے واسطے کہ وہ کیسے غالب ہیں، وہ کیسا ارادہ اور قدرت رکھنے والے ہیں، اتنی بڑی مخلوق کو اس بات پر مامور فرمادیا کہ وہ کرسی کا ایک پایا تھامے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ سے بنی آدم کے لیے روزی کی دُعا کررہا ہے۔ کرسی کے دوسرے پائے کو تھامنے والے فرشتے کی صورت بقر (بیل) کی سی بنائی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے تمام حیوانات کی روزی کے لیے دُعا کرتا رہتا ہے۔ بقر بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بیل