کی طبیعت بن جاتی ہے اور جس سے اللہ تعالیٰ کو نفرت ہوتی ہے اُس سے اُن کو نفرت ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اُن کی محبت داخل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نفرت اور ناراضگی میں اُن کی نفرت و ناراضگی بھی داخل ہوجاتی ہے۔
ایک بزرگ کا قصہ ہے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا: ''کیا حال ہے؟''
انہوں نے کہا: ''اس آدمی کا کیا حال پوچھتے ہو جس کی مرضی سے پوری کائنات چل رہی ہے؟''سب پریشان ہوگئے کہ آپ اپنے آپ کو اتنا بڑا سمجھ رہے ہیں کہ پورا نظامِ کائنات آپ ہی سے چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو پھر کس سے چل رہا ہے؟ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! اس کا کیا مطلب ہے؟
فناء فی اللہ کی حقیقت
انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنا ارادہ بالکل فنا کردیا ہے جو اللہ کی مرضی وہ میری مرضی، جو اللہ کی نامرضی وہ میری نامرضی لہٰذا جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہورہا ہے تو وہ میری ہی مرضی سے ہورہا ہے۔ ایک مقام پر اتنی فنائیت آجاتی ہے۔
ایک بزرگ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہنے لگے: ''سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ''، میں کتنا عمدہ ہوں اور میری کیا شان ہے؟ (یہ کلمات اللہ کے لیے کہے جاتے ہیں: سُبْحَا نہ مَااَعْظَمَ شَانُہٗ) مریدین نے کہا کہ ہمارا پیر کام سے گیا، اس نے یہ کلمات کہہ دیے ہیں، اب تو ان کا ایمان بھی باقی نہیں رہا۔ جب اُن کو افاقہ ہوا تو لوگوں نے کہا کہ حضرت! آپ کو معلوم ہے آپ کیا کہہ رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم میں کیا کہہ رہا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ سبحانی مااعظم شانی کہہ رہے تھے، یہ تو کلماتِ کفر ہیں۔ کہنے لگے کہ ہاں بھئی! میں توبہ کرتا ہوں، یہ تو کلماتِ کفر ہیں، اگر آئندہ کبھی میری زبان سے یہ الفاظ نکلیں تو تم میری گردن مار دینا۔