وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ ۱؎
تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن آٹھ فرشتے تھام لیں گے۔
اُس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ جب جلال کے ساتھ ہوں گے تو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوںمتکبروں اور مغرورین کو اُس دن ایسا بے حیثیت کیا جائے گا جیسے چیونٹیاں وغیرہ پیروں میں روندی جاتی ہیں، کہ ان کو چیونٹیوں کی شکل میں بنا دیا جائیگا کہ ہر چھوٹی چیز بھی ان سے اونچی ہو گی۔۲؎ جو ایمان والے ہوں گے اُن کی عزت کی جائے گی چاہے وہ بادشاہ ہوں چاہے وہ فقیر ہوں، اُن کو بے عزت نہیں کیا جائے گا لیکن جو بے ایمان ہوں گے اللہ تعالیٰ کے سامنے اُن کی بادشاہت اور مقام کو بتانے کے واسطے یہ سب کچھ اُن کے ساتھ کیا جائے گا۔
انبیاء ِکرام پر جلالِ خداوندی کا اثر
اُس دن کا تصورقائم کیجئے کہ انبیاءبھی حوصلہ نہیں کرپائیں گے حالانکہ انبیا٫بخشے بخشائے ہیں، نبی معصوم ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوتے ہیں، جو کچھ اُن سے ہوا وہ اُس غلطی میں شمار نہیں ہوتا جو انسانوں کی عام غلطیاں ہوتی ہیں، پھر بھی صرف اللہ کے جلال، عظمت اور خوف کی وجہ سے اُس دن ایک ایک بات کے بارے میں بھی نبی ڈر رہے ہوں گے کہ اگر آج اللہ پوچھ لیں توکہنے کا کچھ حوصلہ نہیں ہے۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ ٹھیک ہے مجھے معاف کردیا گیاہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ آپ سفارش کرنے آئے ہیں، آپ نے تو جنت کا پھل کھایا تھا۔ میں یہ حوصلہ نہیں کرسکتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ میں حوصلہ نہیں کرسکتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کہیں گے کہ میں حوصلہ نہیں کرسکتا حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں نبوت کو جاری کیا گیا، ان کو اتنا بڑا مرتبہ عطا فرمایا:
-----------------------------------------------------
۱؎: الحاقۃ:۱۷۔ ۲؎ : سنن ترمذی:۲۴۹۲