مباحات میں پڑتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی چھوٹے گناہوں میں نہ پڑے۔ جب آدمی چھوٹے گناہوں میں پڑتا ہے تو شیطان خوش ہوتا ہے کہ میرا کام بننا شروع ہوگیا کیونکہ آدمی چھوٹے گناہوں سے بڑے گناہوں کی طرف خودبخود جاتا ہے اور بڑے گناہوں کے بعد آدمی کبھی کبھی (اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے) ایمان سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔
بعض دفعہ مرنے کے وقت سوئے خاتمہ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ آدمی مرتے وقت بے ایمان نہیں مرتا بلکہ گناہوں کی نحوست کی وجہ سے پہلے ہی بے ایمان ہوچکا ہوتا ہے، بس اُس کا ظہور مرتے وقت میں ہورہا ہے۔ اپنے ذہن میں وہ خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ میں ایمان والا ہوں۔ یہ بڑی خطرناک بات ہوتی ہے کہ یہاں پر آدمی کو خوش فہمی ہو اور وہاں جاتے ہوئے آخر میں ایسے وقت میں پتہ چلے جب عالمِ غیب عالمِ مشاہدہ بن چکا ہے اور پھراُس وقت ایمان معتبر نہیں ہوتا، اُس وقت ایمان لانا فائدہ بھی نہیں دیتا، وہ بہت خطرناک صورتحال ہوتی ہے۔
کمالِ ایمان کے حصول کا طریقہ
اسی واسطے حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے آپ کو پکڑتے(تھامے رہتے) تھے۔ آدمی کو کامل نور حاصل کرنے کے لیے یہاں تک جانا پڑتا ہے۔ اللہ کے راستے میں نکلنا، مجاہدے کرنا، خود پکاکر کھانا، ظاہر ہے ان تمام چیزوں کا اسلام میں باضابطہ حکم تو نہیں ہے مگر ان تمام چیزوں کے بعد نفس میں اللہ کے اوامر پر جمنے اور ناجائز چیزوں سے بچنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔