کیا گیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں نمرود تھا، اس کے پاس کیسی ظلمت پائی جاتی تھی اس کو نمرود کے مبہوت ہونے کے واقعہ کے ذریعہ سے بتایا گیا۔
اللہ پاک اہلِ ایمان کے ولی ہیں
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ تمام ایمان والوں کا ولی ہے۔ اس کو ولایتِ عامہ کہتے ہیں۔ اس میں یہ بات بتادی گئی ہے کہ آدمی یہ سوچے کہ میں ولی اللہ نہیں ہوسکتا، یہ بات غلط ہے۔ لوگ اس طرح کہتے ہیں کہ ہم کہاں ولی ہوسکتے ہیں؟ ہم تو دنیادار ہیں وغیرہ۔ آدمی دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں رہتا ہے ولی اللہ یا ولی الشیطان، اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں ہے۔ جو بھی ایمان والا ہے اُس کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ولایت ہوتی ہے۔ اولیاء اللہ ولایتِ خاصہ کے حامل ہوتے ہیں۔ اِس کی میں کسی اور دن وضاحت کروں گا کہ عام لوگوں کی ولایت میں اور ہمارے پاس جو اولیاء اللہ مشہور ہیں اُن کی ولایت میں کیا فرق ہے؟ ظاہر ہے کہ اولیاء اللہ تو اولیاء اللہ ہیں، اُن کا بڑا مرتبہ اور بڑا مقام ہے، ہم کس شمار میں آئیں گے۔ مگر اولیاء اللہ کی آڑ بناکر خودکا دنیا میں کھپنا اور گناہوں کے کرنے اور بددینی اور فسق و فجور کے راستے کو پیدا کرلینا غلط ہے۔ آدمی اللہ کا رہے گا یا غیراللہ کا رہے گا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ جو ایمان والے ہیں وہ اللہ کے ہیں اور جو بے ایمان ہیں وہ اللہ کے نہیں ہیں۔
ایمان والے ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن کے ناصر ہیں، اُن کے مددگار ہیں، اُن کے دوست ہیں تو پھر دوست دوست کی مدد کرے گا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ ایمان والوں کے ساتھ ضابطہ بالکل الگ رکھتے ہیں اور بے ایمانوں کے ساتھ ضابطہ بالکل الگ رکھتے ہیں۔ بہت کم مسلمان اس حقیقت کی طرف توجہ دیتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ، نے مسلمانوں کے لیے الگ