کرتے تھے کہ ہوا میں اُڑنا ایک عام بات ہوگئی تھی) اور حضرت کے برابر میں نماز پڑھنے لگے۔ جب خادم سجدے میں گئے تو ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان فاصلہ دے کر ہاتھ زمین پر رکھا۔ بعد میں لوگوں نے کہا کہ حضرت! یہ صاحب تو بڑے بزرگ ہیں کہ یہ اُڑ کر آپ کے پاس آکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس پر حضرت بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یہ کیسی بزرگی ہے، کہ اسے حضور ﷺ کے طریقے پر سجدے میں ہاتھ رکھنا ہی نہیں آتا۔ اس واقعہ سے یہ بتادیا کہ نفس پر ریاضت کرکے اُڑنایہ کوئی کرامت نہیں ہےاصل کرامت اور بزرگی اللہ تعالیٰ کا قرب اور وصال ہے جو اتباعِ سنت سے حاصل ہوتا ہے۔
اس کی ترتیب یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کا تعلقِ خاص حاصل کرنا سیکھے اور یہ تعلقِ خاص مجاہدات سے حاصل ہوتا ہے۔ اب یہ مجاہدات آدمی کو دو چیزوں سے آسانی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ ایک اللہ والوں کی صحبت سے، عام طور پر اللہ والوں کی صحبت کے بغیر آدمی کو مجاہدات حاصل نہیں ہوتے۔ دوسرے خود مجاہدہ کرنے سے۔
مولانا الیاس صاحبؒ بھی قطب الارشاد میں سے ہیں
جب حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو خلافت ملی تو انہوں نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کردیا۔ وہ بہت باکمال آدمی تھے، اس لیے کہ بہت مجاہدہ اختیار کرنے والے تھے۔ میں نے اُن کے ملفوظات میں یہ بات دیکھی کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی کو مرید کرتا ہوں اور اُس کو ذکر وغیرہ بتاتا ہوں تو اُس پر فوراً اثرات شروع ہوجاتے ہیں۔ ذکر، شغل، مراقبہ یہ سب بزرگی نہیں ہے۔ یہ سب ذرائع میں سے ہیں۔ کثرتِ ذکر، کثرتِ شغل و مراقبہ، کثرتِ نماز، روزوں کی کثرت وغیرہ یہ سب ذرائع میں سے ہیں۔ اب کوئی آدمی بہت نمازیں پڑھ رہا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ والا ہے۔ نماز پڑھنا ذرائع میں سے ایک ذریعہ