یہی حال مجاہدۂ حکمی میں ہے۔ مجاہدۂ حکمی اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرائض تک جانے کا یہ ایک راستہ ہوتا ہے۔ دعوت میں یہی مجاہدہ ہے کہ بستر سر پر اُٹھالو، مسجد میں رہو، خود پکاؤ، خود کھاؤ، زمین پر سوجاؤ، امیروں اور غریبوں کے ساتھ رہو، اپنے آپ کو چھوٹا بناکر رکھو، یہ تمام چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان کا براہِ راست حکم حدیث میں مل جائے کہ بستر سر پر رکھ کر جاؤ۔ مگر اس طرح کا ماحول بننے سے آدمی کا نفس مرتا ہے اور اس کو اپنی طبیعت کے خلاف کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ پھر جب اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا تعلق اور خوف ملتا ہے اور آدمی کو اپنی طبیعت کے خلاف اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کرنے کی نوبت آتی ہے تو آدمی بآسانی کرلیتا ہے۔
پہلے لوگ اپنے نفس کے خلاف طبیعت کو عادی بنانے کے لیے مجاہدے کیا کرتے تھے۔ میں قصہ سناتا ہوں کہ مجاہدۂ حقیقی سے پہلے مجاہدۂ حکمی کس طرح ہوتا ہے۔ یہ ایک چلنے کا راستہ ہے۔ خدا کرے! اگر امریکا کے ماحول میں کچھ لوگوں کواس کا چسکا لگ گیا اور کچھ لوگوں کو ولایت مل گئی اور اس راستے پر چلے گئے تو دوستو! یہ بہت بڑی بات ہوگی کیونکہ یہاں کے ماحول میں آدمی کے لیے ولایتِ خاصہ بہت مشکل ہے۔ ولایتِ خاصہ کا مدار شریعت پر چلنے سے ہے۔
حضور ﷺ کی ایک نظربھی ولایتِ خاصّہ کے لئے کافی ہے
حضور ﷺ کے زمانے میں حضور ﷺ کی برکت سے جو آدمی ایمان میں داخل ہوتا تھا وہ ولیٔ خاص بن جاتا تھا اور اُسے ایمانِ کامل مل جاتا تھا۔ اسی وجہ سے اُس وقت جو بھی ایمان میں داخل ہوجاتا تھا اُس کے لیے ہر قسم کی قربانیاں آسان تھیں۔صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ہماری زندگی میں ایک فرق ہے، جسے عام طور پر لوگ بیان نہیں کرتے یا سمجھتے نہیں ہیں۔