وَمَاعَبْدَنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ۱؎
ہم نے آپ کی عبادت نہیں کی جیسے آپ کی عبادت کرنی چاہیے تھی۔
ہزاروں سال عبادت کرنے کے بعد فرشتوں نے کہا کہ ہم آپ کو نہیں پہچان پائے،ہم نے آپ کی عبادت نہیں کی جیساکہ عبادت کا حق تھا ۔ کیونکہ جیسی معرفت ہوگی ویسی ہی عبادت ہوگی، ویسا ہی تعلق ،خشیت اور خوف ہوگا۔ آدمی ویسے عبادت کے لیے آتا نہیں ہے اور جب عبادت کے لیے آتا ہے تو تکبر بھرا ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو تکبر سب سے زیادہ ناپسند ہے۔
میں یہ بات ''قیومیت'' پر عرض کررہا تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ''حی'' ہیں، وہ زندہ ہیں، وہ اپنا وجود رکھتے ہیں اور کسی کا بھی حقیقی وجود نہیں ہے۔ اور جس کے پاس بھی وجود ہے وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے اور وہ اُس کے پاس عارضی ہے۔ اہل کشف کا کہنا ہے کہ صرف ایک وجود ہی نہیں ملا بلکہ ایک وجود کے بعد دوسرا وجود، دوسرے کے بعد تیسرا وجود، تیسرے کے بعد چوتھا وجود، یہ تسلسل کے ساتھ ملتا ہی رہتا ہے۔ صوفیاء کرام اس کو تجدد امثال کہتے ہیں۔
مخلوقات کا وجود بطورِ تجدّدِ امثال
تجدد امثال کو اس مثال سے سمجھئے کہ ابھی کرنٹ جل رہا ہے۔ یہ کرنٹ ایک نہیں ہے کہ ایک مرتبہ کرنٹ آیا اور جل گیا بلکہ پہلا کرنٹ جل کر ختم ہوگیا، اُس کے بعد دوسرا آیا، دوسرا ختم ہوا تو تیسرا آیا، تیسرا ختم ہوا تو چوتھا آیا، تب ہی تو ہمارا بجلی کا میٹر چل رہا ہے۔ پہلے کرنٹ کے ختم ہونے کے بعد دوسرا اتنی تیزی کے ساتھ آتا ہے کہ ہمیں پہلے دوسرے کے درمیان عدم اور وجود نظر نہیں آتا بلکہ تسلسل نظر آتا ہے۔
-----------------------------------------------------
۱؎: شعب الإيمان:۱۶۶۔