تھے۔ کیونکہ اسلام و ایمان کا محل دل ہے اور دل پر کسی کا زور نہیں چل سکتا، اسی لیے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا۔
''لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ'' کے بارے میں ایک ضابطہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ دنیا دھوکے کی جگہ ہے۔ اسلام نے اعلان کیا کہ دین میں زبردستی نہیں ہے۔ یہ ''زبردستی'' کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کسی چیز پر جبر کیونکر ہوتا ہے؟ جو بات واضح نہیں ہوتی اُس میں زبردستی منوایا جاتا ہے اور اُس وقت زبردستی کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ چونکہ دین اپنے دلائل کی وجہ سے بالکل واضح ہے اس لیے اس میں زبردستی کی گنجائش ہی نہیں ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ دین کا اصلاً تعلق دل سے ہے اور آدمی کسی کے دل پر جبر نہیں کرسکتا۔ جب سے شریعت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی بھیجے تو ہمیشہ ایسا ہوا کہ اسلام لانے والوں پر جبر کیا گیا کہ تم اسلام کو چھوڑو۔ ایمان لانے والوں پر جبر کیا گیا کہ تم ایمان کو چھوڑو۔ کسی پر ایمان لانے کے لیے جبر نہیں کیا گیا کہ تم ایمان لاؤ۔ انسانیت کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ اسلام لانے پر جبر نہیں کیا گیا بلکہ اسلام کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اگر چور کوتوال کو ڈانٹنا شروع کردے تو کوتوال سوچتا ہے کہ شاید اس نے چوری نہیں کی، اسی وجہ سے اتنی جرأت کررہا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ چور اپنی چوری چھپانے کے لیے دوسروں کو چور کہنا شروع کردیتا ہے۔
جیب کترے کا واقعہ
میں نے اپنی آنکھوں سے بڑا عجیب و غریب واقعہ دیکھا۔ ہم لوگ تاج محل دیکھنے کے لیے آگرہ گئے تھے۔ وہاں پر سیاح اور مالدار لوگ آتے رہتےہیں تو اُچکے اور جیب کترے بھی ہوتے ہیں۔ بس میں کسی کی جیب کاٹ دی گئی۔ جب اُس کو پتہ چلا تو اُس نے یکدم شور مچادیا۔
بس تو رُکی نہیں تھی، اتنی بات طے ہوگئی کہ چور بس ہی میں ہے۔ جیسے ہی بس رُکی لوگ