ہے۔ عرش پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظمت ہے، اللہ تعالیٰ کا جلال ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جائے کہ حق تعالیٰ شانہ، کتنے عظیم ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے بتایا جاتاہے کہ ایک انسان کے ذہن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی جتنی عظمت آسکتی ہے اُس کے تصور کے حساب سے آئے ورنہ تو آدمی کسی بھی چیز کو جان ہی نہیں سکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کے وجود کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ اگر اللہ تعالیٰ زندگی نہ دیتے اور کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہیں تو ان کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہوتا۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں سننے کا خزانہ نہ دیتے اور ہمیں بتایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ سنتے ہیں تو ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سننا کسے کہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھنے کے لیے آنکھیں نہیں دیتے اور ہمیں بتایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھتے ہیں تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ دیکھنا کیا ہوتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے اور ہمارے دیکھنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، جس میں کوئی جوڑ نہیں، مگر سمجھنے کے لیے اور سہولت کے لئے اللہ پاک نے یہ چیزیں دی ہیں کہ دیکھنا ایسا ہوتا ہے، سننا ایسا ہوتا ہے، بولنا ایسا ہوتا ہے، زندگی ایسی ہوتی ہے، وجود ایسا ہوتا ہے۔ حق تعالیٰ شانہ، نے اپنی عظمت اور کبریائی بتانے کے واسطے یہ مخلوقات بنائیں ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی، پھر بڑی سے بڑی اور بڑی سے بڑی بنائی۔
ہمیں دنیا میں دو سو یا چار سو گز کا ایک مکان بڑا معلوم ہوتا ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں ہمیں کسی کا بڑا محل دکھادیا جائے تو وہ ہمیں بڑا معلوم ہوتا ہے۔ چھوٹی بستی کے مقابلے میں بڑی بستی بڑی معلوم ہوتی ہے اور بڑی بستی کے مقابلے میں مزید بڑی بستی بڑی معلوم ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک امریکا اتنا بڑا ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ اگر آپ امریکا کے ساتھ رُوس کو ملادیں، افریقہ کو بھی ملادیں، ایشیائی ملکوں کو بھی ملادیں، تمام ممالک کو آپس میں ملادیں تو وہ زمین کا تہائی بنے گا۔ زمین پر پانی اس سے زیادہ ہے اور پانی کے اوپر ہوا ہے،اور ہمیں اس ہوا کا