یہ مضمون متعدد جگہ پر ہے : قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ۱؎
''قُتِلَ'' کا مطلب ''مارا جائے''۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ انسان کو مارا جائے نہیں فرمارہے ہیں بلکہ یہ قرآن کا ایک اسلوب ہے۔ ''قُتِلَ الْإِنْسَانُ ''انسان کا ناس ہو ''مَا أَكْفَرَهُ ''کیسا وہ کافر ہے، کتنا ناشکرا ہے۔
مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۲؎
کیسی چیز سےبنایااس کو، پیدا کس چیز سے ہوا یہ تو سوچتا ہی نہیں ۔
مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ، ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ، ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ۳؎
نطفہ سے اسکی صورت بنائی پھراس کواندازےسے بنایاپھر اس کا راستہ آسان کر دیا پھر اس کو موت دی پھرقبر میں لے گیا۔
اس آگے کے مرحلے میں اس کو دیکھا جائے تو کوئی شان حماقت کی باقی رہنے کی نہیں ہے۔ حق تعالیٰ شانہ، اتنے عظیم، اتنے عظیم، اتنے عظیم ہیں کہ آدمی اُن کی عظمتوں کے کسی بھی حصے کو نہیں پاسکتا۔ ایسی عظیم ذات کے مقابلے میں آدمی اتنا چھوٹا، اتنا چھوٹا، اتنا چھوٹا ہے کہ اگر وہ اپنی صحیح حیثیت کو سمجھنے لگے تو اُس کی طبیعت چاہے گی کہ میں فنا ہوجاؤں۔
اللہ کی بڑائی نبی اور فرشتوں کی زبانی
یہی وہ چیز تھی جس کے بارے خود نبی علیہ السلام نے فرمایا:
مَاعَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ ۴؎
ہم نے آپ کو نہیں پہچانا جیسے آپ کو پہچاننا چاہیے تھا۔
اور فرشتوں نے کہا:
-----------------------------------------------------
۱؎ : عبس:۱۷۔ ۲؎ : عبس:۱۸۔ ۳؎ : عبس:۱۹تا ۲۱۔ ۴؎ : روح المعاني:۴۷۹۔