جو اولیاء کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ صوفیوں نے واہیات قسم کی چیزیں نکالی ہیں، یہ لوگ بھی غلط ہیں کیونکہ قرآن و حدیث میں صرف نماز روزے کا حکم نہیں ہے۔ اسکی کبھی وضاحت کروں گاکہ قرآن و حدیث میں کن کن چیزوں کا حکم ہے۔
ایمان و تقویٰ میں کمال حاصل کرنے کا ثمرہ
اس کی اصل یہ ہے کہ جب آدمی اپنے ایمان و تقویٰ میں کمال پیدا کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ، اُس کو اپنا ایک قربِ خاص عطا فرماتے ہیں اور اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا حاصل ہوجاتی ہے۔ قربِ خاص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور اُس کے قلب میں اللہ تعالیٰ کی طرف ایک کشش ڈال دی جاتی ہے۔ ولایت اللہ تعالیٰ بندے کو دیتے ہیں، بندہ اس کو لیتا نہیں ہے بلکہ بندہ صرف اس کے اسباب اختیار کرتا ہے۔ جب بندہ تقویٰ اختیار کرنے میں اور احکام کو بجالانے میں مجاہدہ و کوشش کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے مجاہدات سے خوش ہوکر اُس کے قلب میں اپنی طرف سے ایک کشش داخل فرمادیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنے والے سارے کام اُس کے لیے آسان ہوجاتے ہیں اور اُن سے محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اُسی میں اُس کو راحت ملتی ہے۔ اور جتنے کام اللہ تعالیٰ کی نامرضیات میں سے ہیں اُن سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، اُن کا کرنا انتہائی گراں ہوتا ہے، جان چلی جائے لیکن آدمی ایسے کام کے کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ یہ کیفیت دل میں آجاتی ہے۔ اسی کا نام وصول اور نسبت مع اللہ ہے۔ اسی کو ولایتِ خاصہ کہتے ہیں۔
وصول اور نسبت مع اللہ
کہتے ہیں کہ آپ بہت پہنچے ہوئے آدمی ہیں۔ ''پہنچے ہوئے'' کی عربی ’’وصول‘‘ ہے۔ اس ''پہنچنے'' سے کیا مراد ہے؟ ایک معنی ہے ایک چیز کا دوسری چیز سے مل جانا یہاں یہ معنیٰ مراد