ہے، بیوی بچوں سے باتیں کررہا ہے مگر اُس کا دل و دماغ اللہ تعالیٰ کی طرف لگا ہوا ہے۔ دوامِ طاعت کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں ہر عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کے موافق کرنا چاہے فائدہ ہو یا نقصان۔
جب بندے کی طرف سے یہ دو چیزیں پائی جاتی ہیں جو اصل مقصود ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو چیزیں حاصل ہوا کرتی ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کا قربِ خاص اور دوسرا رضائے الٰہی یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اس بندے سے خوش ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشی سب سے بڑی چیز ہے۔وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ۱؎
قربِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ
اس مقصود کے حاصل ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس ذریعے میں اعمال و مجاہدے ہیں۔ ان مجاہدات میں کم کھانا، کم بولنا، کم سونا، لوگوں سے کم ملنا وغیرہ ہےاور اعمال میں اوصافِ حمیدہ مثلاً:نیت،اخلاص،انس،تبلیغ،تفکر،تفویض،تقوی،تواضع،توبہ،توحید،توکل،خشوع،خوف، دعاء،رجاء،رضا،زہد،شکر،شوق،صبر،صدق،اور محبت وغیرہ سے آراستہ ہونا اور اوصافِ رذیلہ یعنی آفاتِ لسان،(کذب وغیبت وغیرہ)اسراف،بخل،بغض ،تکبر،حبِّ جاہ،حبِّ دنیا، حرص،حسد،ریا،شہوت،عجب،اور غضب وغیرہ سے اپنے آپ کو پاک کرنا۔ جب آدمی اس مقصود کو حاصل کرنے کے لیے کوئی ذریعہ اختیار کرتا ہے تو اس کے پیچھے کچھ چیزیں لگ کر آجاتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ یہاں سے گھر جائیں گے۔ آپ کا اصل مقصود گھر جانا ہے لیکن جب آپ جانے لگیں گے تو کبھی آپ کے دائیں طرف، کبھی بائیں طرف اسٹریٹ آئے گی، کبھی آپ کے سامنے ریڈ لائٹ آئے گی، کبھی پارک بھی آئے گا، جب طے شدہ
-----------------------------------------------------
۱؎: التوبۃ:۷۲۔