گا اور اسی میں جائے گا۔ اس لیے اس کے بعد اس مضمون کو بیان فرمایا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
دین میں جبر نہیں
حق تعالیٰ شانہ، فرماتے ہیں: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۱؎
دین میں جبر نہیں ہے۔ جب توحید سامنے آگئی تو کسی کو زبردستی نہیں منوایا جائے گا بلکہ اسے خود ماننا پڑے گا۔ مسلمان ہونا ہی پڑے گا، کافر رہ نہیں سکتا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سمجھانے کا کام ہے اگر ماننا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ مرضی ہے۔ مگر یہ صرف یہاں کے عمل کے اعتبار سے ہے، انجام کے اعتبار سے آدمی کے بس میں نہیں ہے۔
فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ
جو آدمی چاہے ایمان کو اختیار کرے اور جو چاہے کفر کو اختیار کرے۔
إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ نَارًا.۲؎
بلکہ اتنی بات طے ہے کہ ہم نے ظالموں کے لیے آگ تیار کر رکھی ہے، جو کفر کرے گا وہ آگ میں جائے گا لیکن یہاں کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔
اگر انسانوں کو اسلام کے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے تو پھر امتحان کا مقصودختم ہوجاتا ہے۔ امتحان میں اختیار ہے کہ آپ پرچے میں کچھ لکھیں یا نہ لکھیں۔ اگر لکھنا ہی پڑے گا تو اس کو امتحان نہیں کہتے۔ اورانسان ایسی مخلوق ہے جس کے تابع جنات ہیں۔ انسانوں میں مرد اصل ہیں عورتیں اُن کے تابع ہیں اور پھر مرد اور عورت کے بعد جنات ہیں۔ انسان اور جن
-----------------------------------------------------
۱؎: البقرۃ:۲۵۶۔ ۲؎: الکہف:۲۹۔